اگر آپ کسی دْوسرے ملک سے پاکستان کے کسی بڑے شہر کے ہوائی اڈے پر اْتریں تو جہاز سے باہر آتے ہی جو چیز آپ سب سے پہلے محسوس کرتے ہیں وہ بے زاری ہے۔ ہوائی اڈے کا عملہ تھکا ہوا، ہر کام سے بے زار معلوم ہوتا ہے۔ وہ چاق و چوبند لوگ جو آپ کو دْوسرے ملکوں میں نظر آتے ہیں، یہاں اچانک غائب ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے۔ ہمارا موضوع ہوائی اڈے سے باہر کا ہے۔
چنانچہ جب آپ ہوائی اڈے سے باہر نکلتے ہیں اَور اَپنی منزل کی طرف کسی کار میں روانہ ہوتے ہیں تو جو چیز آپ کو سب سے زیادہ نمایاں ہوکر نظر آتی ہے وہ سڑکوں پر دوڑتی، بھاگتی، ناچتی، کودتی دِیوانگی ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ یہاں ٹریفک کا کوئی اْصول، کوئی قانون نہیں ہے۔ ہر شخص اَپنی مرضی کا مالک ہے۔ بے تحاشہ چوڑی سڑکیں ہونے کے باوجود ٹریفک کی روانی ٹھیک نہیں ہے۔ کوئی شخص بھی اَپنی قطار (lane) میں زیادہ دیر تک نہیں چل پاتا۔ لگتا ہے کہ ہر ایک کو جلدی ہے۔ جیسے ہر ایک کے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے جو اْسی نے جاکر بجھانی ہے۔ٹریفک کے اِشاروں کی پابندی چند لوگ ہی کرتے نظر آتے ہیں۔ لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اِشارہ بند ہونے کے بعد بھی چلتے رہیں اَور اِشارہ کھلنے سے پہلے ہی چل پڑیں۔
دْوسرے ملکوں میں، خاص طور پر یورپی ممالک میں، اِتنی چوڑی سڑکیں نہیں ہیں۔ جتنی چوڑی سڑک یہاں عام محلوں میں ہوتی ہے ویسی وہاں بڑی شاہراہیں ہوتی ہیں۔ لندن میں ہماری گلیوں جتنی چوڑی سڑکوں پر ڈبل ڈیکر بسیں چلتی ہیں۔ لیکن حرام ہے کہ آپ کو کہیں کوئی مسئلہ نظر آجائے۔ وہاں ہر شخص ٹریفک کے اْصولوں کی پاسداری کرتا ہے۔ ٹریفک نہایت آرام سے رواں دواں رہتی ہے۔ ہر اِشارے پر ٹریفک کا سپاہی بھی نظر نہیں آتا۔ لوگ کسی خوف سے نہیں، بلکہ عادتاً ٹریفک کے اْصولوں کی پابندی کررہے ہوتے ہیں۔ وہاں آپ کو سڑکوں پر خوانچہ فروش کھڑے نظر نہیں آتے۔ وہاں کسی قسم کی غیر قانونی تجاوزات نظر نہیں آتیں۔ سائیکل اَور موٹر سائیکل یا سکوٹر والے اَپنی قطار میں چلتے ہیں، کاریں اَپنی قطار میں۔ اگر کسی قطار پر لکھا ہو کہ یہ صرف ایمبولینس کے لیے ہے تو وہاں کسی اَور سواری کا نظر آجانا ممکن نہیں ہے۔
ہمارے یہاں کہیں بھی یہ نہیں سکھایا یا بتایا جاتا کہ ٹریفک کے کیا اْصول ہیں اَور اِن کی پابندی کرنا اچھا فعل نہیں ہے بلکہ لازمی ہے۔ کسی اسکول،کسی مدرسے میں یہ تعلیم نہیں دی جاتی۔ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ ٹریفک کے اْصولوں کی خلاف ورزی کرنا گناہ ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ بے شمار بظاہر مذہبی لوگ نہایت آرام سے ون وے کی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اِشارے بھی توڑتے ہیں۔ لیکن چونکہ اْن کے نزدِیک ٹریفک کے اْصولوں کا اِسلام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اِس لیے اِن کی خلاف ورزی کی کسی کو پروا بھی نہیں۔ لوگ جماعت نکل جانے کے ڈر سے سرخ اِشارے پر گاڑی چلا دیتے ہیں اَور ون وے کی خلاف ورزی کربیٹھتے ہیں۔ اِس سے پتا چلتا ہے کہ قوم کی کسی بھی قسم کی کوئی تربیت نہیں ہے۔
اگر آپ سڑکوں پر گھومیں پھریں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ ٹریفک کے اْصولوں کی سب سے زیادہ خلاف ورزی رکشے والے اَور موٹر سائیکل والے کرتے ہیں۔ ستر فی صد موٹر سائیکلوں کی پچھلی لائٹ کام نہیں کررہی ہوتی۔ پچاس فی صد موٹر سائیکلوں اَور رکشوں کی اگلی لائٹ بھی کام نہیں کررہی ہوتی۔ ننانوے فی صد رکشوں کی پچھلی لائٹ خراب ہے۔ ننانوے فی صد موٹر سائیکلوں پر بیک ویو مرر موجود نہیں ہیں۔ نہ جانے وہ کیسے موٹر سائیکل چلاتے ہیں۔ ہمارے یہاں کوئی قانون نہیں ہے جو یہ چیک کرے کہ کس موٹر سائیکل، کار یا رکشے کی کوئی لائٹ کام نہیں کررہی۔ اِس معاملے میں بے حد سختی کی ضرورت ہے۔ اَندھی سواری نہ صرف اَپنے لیے بلکہ دْوسروں کے لیے بھی بے حد خطرناک ہے۔ اگر کسی سواری کی کوئی بھی لائٹ خراب ہو تو اْسے کم از کم پانچ ہزار روپے جرمانہ ہونا چاہیے۔ اگر لائٹ پھر بھی دْرست نہ ہو تو سواری بحق سرکار ضبط کرلینی چاہیے۔ جب تک اِس قسم کی سختی نہیں ہوگی یہ معاملات دْرست نہیں ہوں گے۔
اِسی طرح ٹریفک کے قانون کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے لاگو کرنے چاہئیں۔ یہاں غلط یو ٹرن لینے والوں کی تعداد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔ یعنی ایک طرح سے ون وے کی خلاف ورزی کرنا۔ ہم نے اِس کی روک تھام کے لیے ٹائر کلر لگوائے ہیں۔ حالانکہ اگر کیمرے صحیح کام کررہے ہوں تو ہر اَیسی موٹر سائیکل اَور رِکشے کا آسانی سے چالان کیا جاسکتا ہے جو ون وے کی خلاف ورزی کرے۔ یہاں موٹر سائیکلوں اَور رکشوں پر نمبر پلیٹ ہی نہیں لگی ہوتی۔ بعضوں پر آدھی ٹوٹی ہوئی نمبر پلیٹ ہوتی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ٹریفک پولیس لگتا ہے سوتی ہی رہتی ہے یا موبائل فون پر مصروف رہتی ہے۔
پاکستان میں موٹرسائیکل سوارکو ہیلمٹ پہننے کاپابند کیا گیا ہے۔ یہ پابندی ساری دْنیا میں ہے۔ باہر تو سائیکل سوار پر بھی یہ پابندی ہے۔ ہم لوگ اِسے بھی ایک مصیبت سمجھتے ہیں۔ دراصل ہم مادر پدر آزاد قوم ہیں۔ ہمیں کسی بھی قسم کی پابندی پسند نہیں ہے حالانکہ یہ پابندی خود موٹر سائیکل سوار کی اَپنی حفاظت کے لیے ہے۔
موٹر سائیکل اَور رکشے کے بعدجو لوگ سب سے زیادہ ٹریفک کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ ٹریکٹر ٹرالی اَور ٹرکوں والے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ دونوںسواریاں ہمیشہ فاسٹ لین میں چلتی ہیں حالانکہ اِِن کے لیے سلو لین بنائی گئی ہے۔ اِنہیں سڑک کے سب سے بائیں طرف چلنا چاہیے۔ لیکن یہ دائیں طرف چل رہے ہوتے ہیں۔ مجبوراً لوگوں کو اِن کے بائیں جانب سے اوور ٹیک کرنا پڑتا ہے جس کے باعث بہت سے حادثات پیش آتے ہیں۔ لیکن یہ بھی کوئی نہیں دیکھتا۔ ٹرکوں اَور بسوں کے مالکان نہایت بااثر لوگ ہیں۔ لہٰذا اِن سواریوں پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔
پچاس فی صد گاڑیاں، نوے فی صد موٹر سائیکلیں اَور سو فیصد رکشے مڑتے ہوئے اِشاروں کا اِستعمال نہیں کرتے۔ جس کا جدھر جی کرتا ہے، اْدھر مڑ جاتا ہے۔ اِس کی وجہ سے بے شمار حادثے بھی رونما ہوتے ہیں۔ لیکن سبق کوئی نہیں سیکھتا۔ پھر ڈرائیونگ کرتے ہوئے موبائل فون کا اِستعمال اِس قدر عام ہے کہ غالباً دْنیا میں سب سے زیادہ ہم ہی یہ کام کرتے ہیں۔ آپ گاڑی کو پیچھے دیکھ کر یہ بتا سکتے ہیں کہ ڈرائیور موبائل فون پر مصروف ہے۔ کسی کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ موبائل پر بات کرنے کے لیے یا راستہ معلوم کرنے کے لیے پہلے گاڑی ایک طرف کھڑی کرے اَور یہ کام کرلے۔ سڑکوں پر ہر طرف ایک دِیوانگی کا راج ہے۔ ہماری ٹریفک یہ بتاتی ہے کہ قوم بھی دِیوانگی کی بلند سطح کو چھو رہی ہے۔ دِیگر چیزوں کی طرح ہمارے حکمرانوں کو اِس کی بھی کوئی پروا نہیں۔ ملک اللہ تعالیٰ کے سہارے چل رہا ہے۔
تبصرے بند ہیں.