جمہوری نظام بحرانوں پر قابو پا سکتا ہے ؟

114

حکمران ہوں یا عوام دونوں جمہوریت پسندی کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر وہ اس کے مفہوم سے پوری طرح آگاہ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ سماجی اور سیاسی مسائل حل ہونے میں نہیں آرہے بلکہ روز بروز ان کی گمبھیرتا میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جس سے ایک اضطراب جنم لے رہا ہے جو کسی بڑے طوفان میں بدل سکتا ہے ؟۔
دراصل جمہوریت صرف ایک طرز حکومت ہی نہیں ہے جمہوری حکومت کے لئے جمہوری ریاست کا ہونا ضروری ہے مگر جمہوری ریاست کے لئے جمہوری حکومت ناگزیر نہیں۔یہ تو ہو سکتا ہے کہ ریاست جمہوری ہو مگر حکومت جمہوری نہ ہو یہ نہیں ہو سکتا کہ حکومت جمہوری بن جائے جبکہ ریاست غیر جمہوری ہو اس سے مراد یہ ہے کہ ایک جمہوری ریاست میں کوئی بھی نظام چل سکتا ہے۔اس ضمن میں امریکا کی مثال دی جا سکتی ہے کہ وہ ایک جمہوری ملک ہے مگر ہنگامی حالت میں وہاں تمام اختیارات صدر کے پاس چلے جاتے ہیں یوں وہ ایک آمر بن جاتا ہے۔اسی طرح برطانیہ ہے وہاں تو جمہوریت کے باوجود بادشاہت بھی ہے چاہے وہ علامتی ہی ہے۔
جب ہم دیکھتے ہیں تو جمہوریت کے چار پہلو ہیں۔ سیاسی ‘اقتصادی ‘معاشرتی اور اخلاقی۔سیاسی جمہوریت یہ ہے کہ تمام بالغ شہریوں کو سیاسی حقوق اور شہری آزادیاں حاصل ہوں۔سیاسی حقوق میں رائے دہی کا حق۔امیدوار بننے کا حق عہدوں پر فائز ہونے کا حق شہری آزادیوں میں تحریر و تقریر کی آزادی اور انجمن سازی کی آزادی وغیرہ ہیں اقتصادی میں یہ ہوتا ہے کہ دولت کی تقسیم منصفانہ بنیادوں پر ہو اس جمہوریت میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ لوگوں کو روزگار مہیا کیا جائے ان کے لئے فراغت اور آرام کا انتظام کیا جائے اور ان کی باقاعدہ اجرتیں مقرر کی جائیں۔ معاشرتی جمہوریت میں رنگ نسل ذات پات زبان علاقہ خاندان اور دولت کی بناء پر کوئی تعصب نہ پایا جائے۔تمام شہریوں کو معاشرے میں مساوی اہمیت حاصل ہو اخلاقی جمہوریت کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ ہر کسی کو صلاحتیں ابھارنے کا پورا موقع فراہم کیا جائے۔ریاست لوگوں کی بھلائی کے لئے قائم ہو اور حکومت انسانی بھلائی کے لئے کام کرے !
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ہاں ایسا ہو رہا ہے حکومتیں عوام کی بہتری و فلاح کے لئے سوچ بچار کر رہی ہیں جواب ہو گا نہیں۔اس کے باوجود وہ جمہوریت کا راگ الاپ رہی ہیں۔ہم اپنے ایک کالم میں عرض کر چکے ہیں کہ ہماری حکومتیں جمہوری اصولوں پر کاربند نہیں ہیں اگر وہ چاہتی ہیں کہ جمہوریت پھلے پھولے اور اس کے ثمرات بلا تخصیص و تفریق لوگوں تک پہنچیں تو انہیں تعلیم کو عام اور آسان کرنا ہو گا اس کے بغیر شعور وآگہی کے در وا نہیں ہوتے اور عوام کو اپنے حقوق و فرائض کا علم نہیں ہوتا۔
جب تک عوام کو تعلیم سے بہرہ ور نہیں کیا جاتا نظام حکومت درست خطوط پر استوار نہیں ہو سکتا لوگ سمجھ سوچ کر اپنے نمائندے منتخب نہیں کر سکیں گے نہیں کر رہے۔ شاید اسی لئے ’’مِل‘‘ نے کہا تھا کہ جمہوریت ایک مفلس ترین نظام ہے کہ ہر دس انسانوں میں سے ایک دانا ہے تو باقی نو بیوقوف ہیں اور جمہوریت بیوقوفوں کی حکومت ہے ‘‘۔
بہر حال ان پڑھ یا کم علم لوگ حکومت کے مسائل کو نہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں نہ ہی وہ ان مسائل میں دلچسپی لیتے ہیں لہٰذا جب امیدوار ان سے ووٹ مانگنے جاتے ہیں تو وہ جلد ہی رام ہو جاتے ہیں اور اپنے ووٹوں کو اس کی نذر کر دیتے ہیں جمہوریت میں چونکہ ووٹوں کا شمار ہوتا ہے لہذا وہ جیت جاتے ہیں ان کی قابلیت و اہلیت نظر انداز کر دی جاتی ہے۔
شپنگلر کے نزدیک عوامی حکومت ناممکنات میں سے ہے کیونکہ عوام کو اپنی اجتماعی لاعلمی کی وجہ سے اہل لوگوں کا انتخاب کرنے میں دشواری پیش آتی ہے لہذا وہ ہوشیار اور چالاک اْمیدواروں سے دھوکا کھا جاتے ہیں اس طرح عملاً اقتدار جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھ چلا جاتا ہے ‘‘۔پروفیسر لاسکی بھی عوام کو ان کی تعلیمی کمزوری کی وجہ سے جمہوریت کا اہل نہیں گردانتا اس کے مطابق جنگ یا انقلاب جیسے اہم مواقع کے علاوہ لوگوں کی کثیر تعداد اپنی نجی زندگی میں مصروف رہتی ہے انہیں اطمینان ہوتا ہے کہ پالیسی اور خیالات کی رہنمائی کرنے والے دماغ کہیں موجود ہیں جب تک زندگی معمول پر رہتی ہے لوگ تماشائیوں کی مانند اجتماعی معاملات کا ڈرامہ دیکھتے رہتے ہیں جن میں ان کا اپنا کوئی کردار نہیں ہوتا ‘‘۔
بہر کیف حکومتیں اگر چاہیں تو وہ ایک حقیقی جمہوری معاشرے کی تشکیل کر سکتی ہیں جس میں ہر شہری کے دل کی دھڑکنیں ان کے دلوں کی دھڑکنوں کے ساتھ دھڑک رہی ہوں اور وہ اجتماعی تعمیر و ترقی میں ان کے ساتھ قدم بہ قدم چل رہے ہوں مگر اس کے لئے انہیں تعلیم لازمی اور مفت کرنا ہو گی اس کے بغیر حقیقی جمہوریت نہیں آسکتی جو گمبھیر ہوتے بحرانوں سے چھٹکارا پانے کے لئے بے حد ضروری ہے ۔حرف آخر یہ کہ یہاں ہم نے مختصراً جمہوریت سے متعلق عرض کیا ہے جس میں ماہرین و مفکرین کے خیالات بھی پیش کیے گئے ہیں۔اگلے کسی کالم میں مزید کچھ لکھنے کی کوشش کریں گے !

تبصرے بند ہیں.