اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے سے پہلے وطن عزیز بیشمار چیلنجر کا سامنا کر رہا تھا۔ معیشت کی ہچکولے کھا رہی تھی۔ایک طرف ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلا رہا تھا تو دوسری طرف عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے تھے۔غیریقینی صورتحال سے عوام مایوسی اور بددلی کی پاتال میں گرتی جا رہی تھی۔خارجہ معاذ پر ملک تنہائی کا شکار ہوتا جارہا تھا۔سیاسی عدم استحکام ،اپنوں اور دشمنوں کی سازشوں نے اک عجیب سی فضا قائم کر رکھی تھی۔دشمن اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل ہوتے دیکھ کر خوشی کے شادیانے بجا رہا تھا کہ آج پاکستان کا دیوالیہ ہوا کہ کل۔ فروری 2024ء میں جنرل الیکشن کے بعد اتحادی حکومت بنی تو اندرونی و بیرونی دشمنوں نے کبھی فارم 47 تو کبھی فارم 45 کی آڑ لیکر غیریقینی کی اس فضاء کو مہمیز لگانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
ان حالات میں ملکی حکومت کی باگ ڈور سنبھالنا واقعی سیاسی خود کشی کے مترادف تھاشہباز حکومت نے اقتدار میں آتے ہیں ملک کے لیے ٹھوس اور تاریخی اصلاحات متعارف کروائیں جس سے نہ صرف کاروباری برادری کا اعتماد بڑھا مہنگائی میں کمی اور روزگار میں اضافہ سے عوام کے درمیان چھائے مایوسی کے بادل بھی چھٹنا شروع ہو گئے۔بہترین اور مدبر خارجہ پالیسی سے عالمی سطح پر پاکستان کا ایک نہایت مثبت تشخص اجاگر ہو رہا ہے ،جس سے پاکستان نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سرگرمیوں کا محور بن رہاہے اقوام متحدہ کے انہتر ویں اجلاس میں وزیراعظم پاکستان نے جس مدلل انداز میں کشمیر اور فلسطین جیسے عالمی مسائل پر پاکستان کے مؤقف کو پیش کیا اس پاکستان حقیقتاً مسلم امہ کا لیڈر بن کر سامنے آیا۔،2 سے 4 اکتوبر کو ملائیشیا کے وزیراعظم نے پاکستان کا دورہ کیا۔دونوں ملکوں نے تجارت ،سرمایہ کاری ،دفاع اور زراعت جیسے اہم شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ملائیشیا 2025ء کے لیے آسیان کا چیئرمین منتخب ہوا ہے جس سے خطے میں اس اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ حالیہ دورے کے نتیجے میں پاکستان ملائیشیا کو 200 ملین ڈالر مالیت کا حلال گوشت اور ایک لاکھ میٹرک ٹن باسمتی چاول برآمد کرے گا۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک پام آئل ،ملبوسات ،ٹیکسٹائل ،کیمیکل پر مبنی مصنوعات اور الیکٹرک مصنوعات میں ایک دوسرے کے ہاں سرمایہ کاری کریں گے۔
بلاشبہ وزیراعظم داتو سری انور ابراہیم کا دورہ خارجہ سطح پر ایک نہایت مثبت پیش رفت ہے۔
شہباز شریف نے سیاسی مفادات سے بالاترہو کر ایک مشکل حالات میں حکومت سنبھالی اور اپنی ٹیم کے ہمراہ ملکی تقدیر سنوارنے کا بیڑہ اپنے سر لیا۔یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلم لیگ کی موجودہ حکومت اللہ کی مدد اور اپنی انتھک محنت سے حالات پر قابو پاتی جا رہی ہے۔
9 اکتوبر کو سعودی عرب کے سرمایہ کاری کے وزیر خالدبن عبد العزیز کی سربراہی میں سعودی وفد کی پاکستان آمد خوش گوار ہوا کا اک جھونکا ہے کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب یک جان دو قالب ہیں۔ ماضی میں دونوں ملکوں کے درمیان دوستی مثالی رہی ہے۔ دورے کے دوران سعودی وزیر نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب دو دوست نہیں بلکہ ایک خاندان ہے۔
بدقسمتی سے پچھلے کچھ عرصے سے دونوں ممالک کے درمیان ایک نامعلوم سا تناؤ محسوس ہو رہا تھا جو سعودی وفد کے دورے سے دور ہوا ہے۔اعلیٰ سطح سعودی وفد کی آمد سے یقینا دونوں ملکوں کے درمیان تعاون بڑھے گا۔اس دورے کے نتیجے میں دونوں ممالک نے مفاہمت کی 27 یاداشتوں پر دستخط کیے جن میں توانائی ،پٹرولیم، ٹیکسٹائل ،تعمیرات، ٹرانسپورٹ ،سائبر سکیورٹی ،مصالحہ جات، سبزیوں کی برآمد اور ہنرمند افرادی قوت کے شعبہ جات شامل ہیں۔سعودی وزیر کا یہ کہنا کہ پاکستان کی مختصر وقت میں معاشی بہتری متاثر کن ہے۔ نہایت ہی افزاء بات ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس 15اور16 اکتوبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے جارہا ہے گیارہ سال بعد چین کے وزیر اعظم لی شیانگ پاکستان آ رہے ہیں جس سے پاک چین دوستی کو نئی جہتیں ملیں گی۔
10 سال بعد بھارتی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد بھی ایک نہایت اہم پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔
امید واثق ہے کہ جس طرح 2013ء سے 2018ء تک مسلم لیگ کی حکومت نے کاروبار کی آسانی اور عام آدمی کی فلاح کیلئے اقدامات کیے تھے اسی طرح موجودہ ٹرم میں بھی مسلم لیگ (ن) معاشی ترقی ،خوش حالی و سفارتی ترقی کے اس سفر کو جاری وساری رکھے گی۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.