(گزشتہ سے پیوستہ)
سفر حرمین شریفین کے بارے میں اپنی یادوں اور اپنے ذاتی مشاہدات، محسوسات اور تاثرات کو سامنے رکھتے ہوئے لکھنا شروع کیا تو خیال تھا کہ یہ سلسہ اتنا پھیلے گا نہیں اور چند قسطوں میں ختم ہو جائے گا۔ تا ہم جو ں جوں یہ سلسلہ آگے بڑھنا شروع ہوا تو مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام اور اس کے قرب و جوار کے مقامات جن میں سے زیادہ مسجد الحرام کی وسعت فراخی اور زیبائش و سجاوٹ کے خادمان حرمین شریفین شاہ فہد مرحوم اور شاہ عبداللہ مرحوم کے ناموں پر شروع کیے گئے اور پھیلاؤ (Expansion) منصوبوں کے تحت مسجد الحرام میں ضم ہو چکے ہیں کے بارے میں ذہن کے نہاں خانے میں موجود یادیں اور باتیں اس طرح ابھر کر سامنے شروع ہو گئیں کہ ان کا تذکرہ جہاں دراز ہو گیا ہے وہاں مزید دراز ہونا ہے کہ مکہ مکرمہ اور مسجد الحرام اور بیت اللہ شریف کے بعد ابھی شہرِ نبی ﷺ مدینہ منورہ کی پر کیف اور پُر نور فضاؤں اور ہواؤں اور مسجد نبوی ﷺ و روضہِ رسول ﷺ کے تقدس و حرمت، جلال و جمال، وسعتوں، عظمتوں، فراخی، کشادگی اور حسن و آرائش کا ذکر کرنا باقی ہے۔ سچی بات ہے کہ یہ سب کچھ لکھتے ہوئے مجھے کپکپاہٹ بھی طاری رہتی ہے کہ مجھ سے کوئی خلافِ حقیقت بات یا تاثر کا اظہار نہ ہو جائے، کہیں میں کسی مقام کے بارے میں کوئی ایسی بات نہ لکھ دوں جو حقائق کے منافی ہو۔ میرے جیسا معمر پرانے ذہن اور پرانی سوچ کا مالک شخص جسے اپنا (Android) موبائل فون استعمال کرنا بھی پوری طرح نہیں آتا، اس کی طرف سے بیان کرہ حالات و واقعات اور حقائق میں غلطی یا فرو گزاشت کا احتمال ہو سکتا ہے کہ میں بڑی حد تک یہ سب کچھ اپنی یادداشت اور اپنے ذہن کے نہاں خانے میں موجود یادوں یا کہیں پڑھے سُنے واقعات کو سامنے رکھ کر لکھ رہا ہوں۔ تاہم کچھ اعدادو شمار اور معلومات بڑی تگ و دو کے بعد گوگل سے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا پھر زبیر ریاض اور عبدالمالک فرید جیسے پاکستانی نژاد یو ٹیوب وی لاگرز جو عرصہ دراز سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام پذیر ہیں کے وی لاگز سے اخذ کردہ ضروری معلومات سے استفادہ کیا جاتا ہے۔
ان تمہیدی کلمات جو تاخیر سے لکھے جارہے ہیں لیکن دیر آید درست آید کے مصداق سمجھے جا سکتے ہیں کے بعد اصل موضوع مسجد الحرام کی وسعتوں، عظمتوں اور جلا ل و جمال کے بیان کی طرف آتے ہیں۔لیکن
پہلے اپنے دل کی گہرائیوں سے ابھرنے والے تاثر کا اظہار کرنا چاہوں گا جو حرمین شریفین یعنی مسجد الحرام و خانہ کعبہ مکہ مکرمہ اور مسجد نبویؐ و روضہ اقدس ﷺ مدینہ منورہ کی وسعتوں، عظمتوں، حسن و آرائش اور بے مثال تعمیر و بناوٹ و سجاوٹ کو دیکھ کرمیرے دل میں موجود ہے۔ میرا ستمبر ۱۹۸۳ء میں حج کے موقع پر اور اکتالیس برس بعد اب جولائی ۲۰۲۴ء میں عمرے کی ادائیگی اور مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ پر حاضری کے موقع پر یہ پختہ خیال رہا ہے کہ مسلمان دنیاوی بادشاہوں اور حکمرانوں بالخصوص جن کا تعلق سر زمین حجاز سے رہا ہے کی یہ پہچان، خصوصیت، خوبی یا خاص بات سمجھی جا سکتی ہے کہ انہوں نے حرمین شریفین (مسجد الحرام مکہ مکرمہ اور مسجد نبوی و روضہ رسول ﷺ مدینہ منورہ) کی تعمیر و ترقی، وسعت اور پھیلاؤ، سجاوٹ اور بناوٹ اور آرائش و جمال اور حسن و خوبصورتی کو بڑھانے اور اجاگر کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے۔ یہ حکمران جیسے بھی تھے یا جیسے بھی ہیں، متکبر اور مغرور یا خدا ترس اور عادل، ظالم، جابر اور قاہر یا رحمدل اور نرم خو، نیک اور پر ہیز گار یا گناہ گار اور خطار کار یہ ایک دوسرے سے مختلف ہی کیوں نہ ہوں، لگتا ہے کہ اللہ کریم کے دربار اورنبی پاک ﷺ کے حضور انہوں نے اپنی عقیدت و احترام اور اپنی محبت اور لگاؤ کے اظہار میں کچھ کمی نہیں چھوڑی ہے۔ ان میں بنو امیہ سے تعلق رکھنے والے حکمران رہے ہوں یا بنو عباس سے تعلق رکھنے والے خلفاء ہوں، ترک عثمانی سلطان ہوں یا موجودہ دور کے آلِ سعود سے تعلق رکھنے والے بادشا ہ ہوں یہ سب حرمین شریفین کے تقدس اور حرمت کے سامنے اپنی جبین نیاز کو جھکاتے رہے ہیں یا جھکا رہے ہیں اور حرمین شریفین کے حسن و جمال، عظمت وشان اور فراخی و کشادگی کو بڑھانے کے لیے ایک سے ایک بڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں یا لے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد الحرام کو نظروں میں سمویا جائے یا مسجد نبوی و روضہ رسول ﷺ کو آانکھوں کا سرمہ بنایا جائے تو بے ساختہ یہ کہنا اور تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ دنیا کی کوئی عمارت، کوئی یادگار اپنی بناوٹ، سجاوٹ، آرائش و جمال، وسعت و فراخی اور عظمت و شان میں ہمارے ایمان و یقین کے مراکز حرمین شریفین کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
جہاں تک شاہ عبداللہ (Expansion) منصوبے کے تحت مسجد الحرام کی کشادگی، فراخی، پھیلاؤ اور تعمیر ِ نو کا تعلق ہے یہ عظیم الشان اور فقیدالمثال منصوبہ پچھلی صدی کے آخری بارہ چودہ سال میں زیرِ تعمیر اور اس صدی کے ابتدائی برسوں میں پایہ تکمیل تک پہنچنے والے مسجد الحرام کی وسعت اور فراخی و کشادگی کے شاہ فہد (Expansion) منصوبے کے بعد مسجد الحرام کی وسعت اور تعمیر کا آج تک کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جس کا اعلان ۲۰۰۸ء میں سعودی حکومت کی طرف سے کیا گیا۔ اس کے تحت مسجد الحرام کو مغرب اور شمال مغرب میں ددر دور تک وسعت دینے کی منصوبہ بندی کی گئی تا کہ مسجد الحرام کے کل رقبہ کو چار لاکھ مربع میٹر تک بڑھایا جا سکے او ر اس میں ایک وقت میں 15 لاکھ تک زائرین نماز اور عبادت کے لیے سما سکیں۔
اس منصوبے پر لاگت کا ابتدائی تخمینہ100 ارب ڈالر لگایا گیا اور اگست ۲۰۱۱ء میں اس پر باقاعدہ کام کا آغاز کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت مسجد الحرام کی (Expansion) کا بہت سارا کام مکمل ہو چکا ہے اور کچھ ہی کام باقی ہے۔ اس منصوبے کے تحت مسجد الحرام میں ایک نیا دروازہ یا گیٹ بنایا گیا ہے جس کا نمبر100 ہے اور یہ باب شاہ عبداللہ کے نام سے موسوم ہے۔ بلا شبہ یہ مسجد الحرام کا خوبصورت ترین گیٹ ہے اور اس پر دو مینار بنائے گئے ہیں۔ ان دو میناروں کو شامل کر کے مسجد الحرام کے میناروں کی تعداد گیارہ بن جاتی ہے۔ 19 جولائی کو جمعۃ المبارک کی نماز کی ادائیگی کے لیے (اس کا تفصیلی ذکر انشاء اللہ آئندہ کسی کالم میں ہو گا) ہمیں مسجد الحرام کے اسی گیٹ یعنی باب شاہ عبداللہ سے داخل ہونا پڑا کیونکہ باب فہد سے داخلے کا راستہ بند ہو چکا تھا۔ میں عمران اور راضیہ اس گیٹ سے داخل ہوئے تو پھر ہمیں مسجد الحرام کے جنوب مغربی اور مغربی حصوں کے برآمدوں میں کتنی دیر تک چلنا پڑا۔ ہم اگلے برآمدوں میں چلتے ہوئے بہت آگے تک نکل گئے لیکن مسجد الحرام کی نچلی منزل کے برآمدوں کا پھیلاؤ ختم نہیں ہو رہا تھا۔ ہم نے یہی مناسب جانا کہ اسی حصے میں مردوں اور خواتین کے لیے نماز کے لیے مخصوص الگ کھلے احاطوں میں جمعۃ المبارک کی نماز اداکر لیں۔ نماز کی ادائیگی کے بعد ہم نے مسجد الحرام سے باہر آ کر مسجد الحرام کے گیٹ نمبر79 بابِ فہد کے سامنے جانا تھا تا کہ واجد اور خواتین کے ساتھ ہمارا رابطہ ہو سکے تو اس کے لیے ہمیں مسجد الحرام سے باہر نکلنے اور آگے بابِ فہد تک پہنچنے کے لیے لمبا راستہ طے کرنا پڑا۔ اس سے ہمیں (مجھے) اندازہ ہوا کہ مسجد الحرام کے شاہ عبداللہ (Expansion) منصوبے کے تحت اس کی وسعت، فراخی اور کشادگی میں کتنا اضافہ ہو چکا ہے۔ (جاری ہے)
Prev Post
تبصرے بند ہیں.