آج کے دور میں کہ جہاں نفسا نفسی، کرپشن، بے راہ روی، سوشل میڈیا کے بلا احتساب استعمال اور دیگر کئی خرافات اپنے عروج پہ نظر آتی ہیں۔ تو دل سے ایک ہی دعا نکلتی ہے کہ کاش موجودہ دور میں قائداعظمؒ کے بلند اور اجلے کردار والا ایک اور لیڈر پاکستان کو دوبارہ میسر آئے تا کہ پاکستان بھی مہاتیر محمد کے ملائیشیا اور اردوان کے ترکی کی طرح دن دگنی رات چوگنی ترقی کر کے عالم میں اپنا جائز مقام حاصل کر سکے۔ یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ ایک سیاسی پارٹی بلکہ ایک مادر پدر آزاد گروہ کے ممبران اور لیڈران آج کل اپنے گروہ کے سربراہ کو قائد اعظم ثانی کا خطاب دے رہے ہیں۔ مجبوراً ہی سہی لیکن آئیے آپ کو دونوں کا کردار دکھاتے ہیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ قائداعظم کیا تھے اور قائد اعظم سے تشبیہ دئیے جانے والا کس کردار کا مالک ہے۔ قائد اعظمؒ کی زندگی میں کئی اہم موڑ آئے کہ جہاں آپ کے کردار کا بھی امتحان لیا گیا۔ اس میں سب سے مشہور واقعہ آپ کے ساتھ ٹرین پہ سفر کرتے ہوئے پیش آیا۔ مخالفین نے ایک سازش کے تحت ایک فاحشہ کو قائداعظم کے ڈبے میں بجھوا دیا۔ اسے کہا گیا کہ وہ اندر جاتے ہی اپنے کپڑے پھاڑ لے اور چیخ و پکار شروع کر دے۔ وہ ڈبے میں پہنچی تو اس نے دیکھا کہ ایک شخص بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے۔ آنے والی کا حلیہ بتا رہا تھا کہ وہ کس قماش کی عورت ہے۔ قائد اعظم کو صورتحال بھانپنے میں زیادہ دیر نا لگی، اب وہ قائداعظم کے پاس بیٹھ کر بات چیت کرنے لگی تو تھوڑی دیر بعد اس نے دیکھا کہ دوسری طرف سے کوئی جواب نا ہے۔ دوسرا شخص اخبار پڑھنے میں ہی مصروف ہے تو اس نے ہاتھ لگا کر قائد اعظم کو اپنی طرف متوجہ کیا اور کچھ کہا تو قائد نے فوراً اپنے کانوں اور زبان کی طرف اشارہ کیا کہ جیسے وہ گونگے اور بہرے ہیں اور انہیں نا تو کچھ سنائی دیتا ہے اور نا ہی وہ بول سکتے ہیں۔ تو اس کو احساس ہوا کہ یہ شخص جو نا سنتا ہے اور نا ہی بولتا ہے یہ مسلمانوں کا لیڈر نہیں ہو سکتا چنانچہ وہ فوراً ڈبے سے نکل گئی۔ لیکن قائد نے اپنی سکیورٹی (جو مسلم سٹوڈنٹس کے ذمہ ہوتی تھی) کو پکارا اور اسے پکڑوا دیا۔ پھر اگلے سٹیشن پہ اسے گرفتار کرا دیا گیا۔ جہاں اس نے پولیس کی موجودگی میں سب کچھ اگل دیا۔ مختصراً چاہتے ہوئے اور پورا زور لگانے کے باوجود بھی قائد اعظم کے سیاسی مخالفین ان کے کردار پہ کبھی کوئی انگلی نا اٹھا سکے۔ اب یہیں دوسری طرف موجودہ دور کے لیڈر کو دیکھیں تو اس شخص کی زندگی چیخ چیخ کر اس کے بد کردار ہونے کی گواہی دے رہی ہے اور اس کی آڈیوز، وڈیوز تک منظر عام پہ موجود ہیں لیکن پھر بھی اس کے اندھے مقلدین اسے قائد اعظم ثانی کا نام دے رہے ہیں۔ کیا قوم اتنی بے غیرت و بے حس ہو گئی ہے کہ کسی کے نزدیک کردار کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی۔ سوچئے۔ کیونکہ آپ کا یہ فعل، یہ موازنہ روز محشر آپ کو بھاری بھی پڑ سکتا ہے۔ اسی طرح قائد اعظمؒ نے اپنی ذاتی زندگی کو بھی قوم اور دوسرے لیڈران کے لیے مشعل راہ بنایا۔ جب آپ کی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی نے ایک پارسی سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا تو صرف اس لیے کہ وہ اسلام کے دئیے گئے ضابطہ کے خلاف فیصلہ کرنے جا رہی تھی آپ نے اپنی سب سے پیاری بیٹی سے سارے رشتے ناتے ختم کر لیے اور ملنے سے بھی منع فرما دیا اور تاریخ گواہ ہے کہ اپنی زندگی میں پھر اس سے کبھی نا ملے۔ دوسری طرف موجودہ دور والے موصوف ایک عدد ناجائز بچی کے والد ہیں اور وہ بچی آجکل موصوف کی سابقہ اہلیہ کے پاس اپنے بھائیوں کے ساتھ رہ رہی ہے۔ حیرت ہوتی ہے اور ان لوگوں کی عقل پہ ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے جو موجودہ دور کے ایک بدکار کو قائد اعظم سے ملا رہے ہوتے ہیں۔ یقینا ایسا کرنے والے خود بھی ایسے ہی قماش کے لوگ ہیں۔ قائد کا اگلا واقعہ پاکستان بننے سے کچھ دیر پہلے ہونے والے الیکشن کے دنوں کا ہے۔ اس الیکشن میں آل انڈیا مسلم لیگ قائد اعظمؒ کی بے مثال قیادت میں بھرپور طاقت سے حصہ لے رہی تھی اور دشمنان پاکستان و اسلام پوری قوت سے مسلم لیگ کو مات دینے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہے تھے کہ اک دن مسلم لیگ کے ایک نامور رہنما قائد اعظم کے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ ان کے پاس کچھ ایسے خطوط آئے ہیں کہ جن کی اشاعت کے بعد انگریز سرکار اور کانگرس دونوں منہ چھپاتی پھریں گی اور مسلم لیگ کو یہ الیکشن جیتنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ قائد نے ان کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ آخر ان خطوط میں کیا ہے کہ جس سے دونوں فریق بیک وقت زچ ہو جائیں گے؟ تو دوسری طرف سے جواب ملا کہ نہرو اور ایڈوینا (آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی بیوی) نے ایک دوسرے کی محبت میں کچھ خطوط لکھے ہیں اور ان سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان ناجائز تعلقات ہیں۔ یہ سنتے ہی قائد اعظمؒ کا رنگ غصے سے لال ہو گیا اور فرمایا کہ یہ ان کا نجی معاملہ ہے۔ اس طرح ایسے معاملے کی اشاعت سے میں اپنے رب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات سے روگردانی کر کے محض دنیاوی فائدے کے لیے اپنی آخرت خراب نہیں کرنا چاہتا۔ پھر فرمایا کہ یاد رکھو، اقوام ہمیشہ اپنے اخلاقی معیار اپنے لیڈران سے سیکھتے آئے ہیں اور میں ایسا فعل کر کے عظیم مسلمان قوم کو ایسی غیر اسلامی اور نا مناسب چیزوں کا سبق نہیں دے سکتا۔ اس کے بعد حکم دیا کہ وہ تمام خطوط بغیر پڑھے فوراً تلف کر دئیے جائیں۔ ایک طرف تو قیادت کا یہ معیار تھا اور دوسری طرف موجودہ دور کا ایک بدکردار و بد گفتار شخص ہے کہ جس کی ہوس اور بد زبانی سے کسی کی عزت محفوظ نہیں۔ گلالئی، پانیزئی، ریحام سمیت کئی خواتیں چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہیں کہ یہ لیڈر نہیں ایک جنسی درندہ ہے۔ اسی طرح جب تقسیم سامنے نظر آنے لگی تو ایک دن پنڈت نہرو اور مہاتما گاندھی دونوں قائد اعظم سے وقت لیکر ملنے آئے۔ اس ملاقات میں دونوں نے اپنا آخری پتہ پھینک دیا۔ کہنے لگے جناح ملک تقسیم نا کرو، تم جو مانگتے ہو ہم دیتے ہیں، اگر تم چاہو تو متحدہ ہندوستان کے تاحیات گورنر جنرل یا وزیر اعظم بن جاؤ۔ اس موقع پہ قائد نے انہیں تاریخی جواب دیا ’’جو تم لوگ کہہ رہے ہو اس کی قیمت بیس کروڑ مسلمانوں کی غلامی ہے اور جو اس کے بدلے میں تم مجھے دے رہے ہو میرے نزدیک مسلمانوں کی آزادی کے مقابلے میں اس کی حیثیت میری جوتی کی خاک کے برابر بھی نہیں‘‘۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ قائد اعظم کی باکردار، اصول پسند، لازوال، بے مثال قیادت میں ایک نئی مملکت خدا داد، ارض پاک معرض وجود میں آ گئی۔ دوسری طرف موجودہ دور کے لیڈر نے صرف اپنے اقتدار کو طول دینے اور امریکی خوشنودی کی خاطر کشمیر کا ہی سودا کر ڈالا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قائد اعظمؒ سے ان کے بعد آنے والے کسی بھی لیڈر کا کوئی موازنہ بنتا ہی نہیں خصوصاً ایک بد کردار، بد گفتار اور ملک و قوم دشمن اور کشمیر فروش کا تو صریحاً نہیں بنتا۔ اب آخر میں میری اپنی قوم سے بھی درخواست ہے کہ لیڈر کا انتخاب کرتے ہوئے کوئی تو معیار رکھیں۔ کچھ تو اسلامی تعلیمات، اپنی تہذیب و تمدن کا خیال کریں اور خدارا اس دنیاوی فتنے یعنی عمران نیازی کو اپنے وقت کے ولی اور پاکستان کے خالق لیڈر سے تشبیہ نا دیں اور نا کبھی موازنہ کریں۔ کیونکہ سچ تو یہ یے کہ نیازی تو قائداعظمؒ کی جوتی کے برابر بھی نہیں۔
تبصرے بند ہیں.