پرنٹ میڈیا کا سورج غروب ہو رہا ہے؟

149

بھلا ہو الیکٹرانک میڈیا اور اس کے بعد سوشل میڈیا کا کہ جنہوں نے چند ہی برسوں میں پُوری قوم کو دانشور بنا ڈالا ہے۔کسی سیانے بندے کا کہنا ہے کہ پُوری دُنیا میں انٹرٹینمنٹ چینل کمائی کا ذریعہ ہوتے ہیں اور نیوز چینل سے کوئی خاص کمائی نہیں ہوتی لیکن ہمارے مُلک میں صورتحال کچھ عرصہ اس کے باکل اُلٹ رہنے کے بعد ایک مرتبہ پھر سے پلٹا کھا کر ایک تیسری سمت کی جانب جا تی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔
کئی سال پہلے جب مُلک کے پہلے نیوز چینل کا اعلان ہوا تو لوگوں کی اکثریت کی طرح میرا بھی یہی خیال تھا کہ یہ آئیڈیا بُری طرح نا کام ہو جائے گا کیونکہ ایک ایسا ٹی وی چینل جس پر 24گھنٹے خبریں ہی آتی ہوں اس میں شائد ہماری قوم کی کوئی دلچسپی نہ ہو۔ مگر وقت اور حالات نے اس سوچ کو غلط ثابت کیا۔ اگرچہ مُلک کے سیاسی اور سماجی اُتار چڑھائو نے بھی نیوز چینلز کو پنپنے کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کی لیکن وجہ جو بھی ہو حقیقت یہ ہے کہ آج مُلک میں کئی نیوز چینل بیک وقت کام کر رہے ہیں اور تقریباًسبھی اچھا منافع کما رہے ہیں، اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی لوگوں کو اپنی آمدنی بڑھانے کا موقع ملا ہے۔
ان نیوز چینلز نے مالکان کو تو کما ئی کر کے دی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ سیاستدانوں اور عوام کا بھی کافی بھلا کیا ہے۔ سیاستدان اب جلسے جلُوس کر کے یا گلی گلی، گھر گھر جا کر عوامی مہم چلانے کے بجائے کسی ٹی وی ٹاک شو میں بیٹھ کر زیادہ موثر انداز میں اپنی سیاست چمکا سکتے ہیں۔ اسی طرح عوام کو شام کے وقت ایک اچھی مصروفیت مل گئی ہے جس سے ان کے’ شعور‘ اور معلومات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
اگرچہ الیکٹرانک میڈیا کو انتہائی قلیل عرصہ میں عوام میں بے پناہ پذیرائی ملی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیشہ ورانہ پختگی حاصل کرنے کے لیے اسے وقت درکارتھا۔ آج ان پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر کتنے ہی ایسے پروگرام دکھائے جاتے ہیں جو سماجی بہتری کے لیے بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔لیکن ان پرگراموں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جن کی اساس ہی بدتمیزی، بد تہذیبی اوربد اخلاقی ہے۔ بعض سیاستدان بشمول خواتین تو یہ بات جاننے کے باوجود کہ جس پروگرام میں وہ بیٹھے ہیں وہ براہ ِراست ٹیلی کاسٹ کیا جا رہا ہے اخلاق کی وہ دھجیاں بکھیرتے ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ انہیں تمیز سکھانے والے کسی سکول میں بھیج دیا جائے۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ بعض ٹی وی اینکرز بھی اپنے پروگراموں کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے اس قسم کی صورتحال کو مزید ہوا دیتے ہیں۔بعض ٹاک شوز میں شرکاء ہوں یا اینکر پرسن اُونچا بولنا اور بدتمیزی کرنا ہی ان کا معیار ہے۔ اس قسم کی حرکتیں کرنے والے افراد کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے وہ ایسا کر کے کسی پارٹی یا ادارے کی خدمت نہیں کرتے اور نہ ہی اس کا کوئی سیاسی حصول ہے۔
دوسری طرف ان پروگراموں کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے جنہوں نے عوام کے شعور اور تعلیم میں اضافہ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہ ہر ایک گھنٹے کے بعد معیاری خبروں اور ذمہ دار ٹاک شوز کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمارے عوام کی سیاسی سوچ میں پختگی آ رہی ہے۔
چند روز قبل گاڑی کی کچھ مرمت کے سلسلہ میں ورکشاپ جانا ہوا۔گاڑی ٹھیک کرانے کے دوران مجھے اس وقت ایک خوشگوار حیرت ہوئی جب وہ نوجوان مکینک جو میری گاڑی ٹھیک کر رہا تھا گاڑی کے نیچے سے نکلا اور کہنے لگا کہ سر بارہ بجنے والے ہیں میں ہیڈ لائینز سُن کر ابھی آتا ہوں۔بہت خوب اب ایک موٹر مکینک کو بھی خبروں سے اس قدر دلچسپی ہے کہ وہ اپنا کام چھوڑ کر ہیڈلائینز سننے جاتا ہے۔ میرے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ نوجوان کی ایک بڑی تعداد جن کے پاس رسمی تعلیم تو نہیں ہے مگر ان کے اندر قومی اور بین الاقوامی مسائل میں خاصی دلچسپی پیدا ہو چُکی ہے۔ صحیح اور غلط کی تمیز کرنا، تمام مسائل پر اپنی ایک سوچ رکھنا اور حالات کو بہتری کی طرف لے جانے کی کوشش کرنا کیا یہی دانشوری ہے؟اگر ہے تو ہمارے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد دانشور بننے کے موڈ میں نظر آتی ہے۔ اگر میرا اندازہ درست ہے تو شائد یہی وہ مقام ہے جہاں سے حالات کی درستی کا عمل شروع ہوگا۔ عوام میں بڑھتا ہوا شعور معاشرے میں بہتری کا اشارہ دے رہا ہے۔ بے شک شعور اور تعلیم میں اضافہ ہی مُلک میں سیاسی اور سماجی بہتری لائے گا۔ میڈیا اس کے لیے بہترین ہتھیار ہے۔ لیکن ضرورت اس ہتھیار کو در ست طریقے سے استعمال کرنے کی ہے۔
ابھی ہم میڈیا کی ترقی اور عوام میں شعور کے اضافہ پر ٹھیک طرح سے خوش ہو بھی نہ پائے تھے کہ معلوم ہوا کہ اب تو الیکٹرانک میڈیا کا بھی دور اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے۔ سن کر حیرت ہوئی کہ ابھی تو ہم اس کے آغاز اور اس سے ہونے والے فوائد کی خوشیاں بھی منا نہیں پائے تھے کہ اس قسم کی خبریں آنا شروع ہو گئیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ پرنٹ میڈیا تو مکمل طور پر زمین بوس ہونے کے قریب ہے۔
ابھی اسی معاملہ کو لے کر پریشانی ختم نہیں ہوئی تھی کہ معلوم ہوا کہ اب تو سوشل میڈیا کا ہی دور ہو گا۔ یعنی اب ہم ایک ایسے میڈیا کے رحم و کرم پر ہوں گے کہ جس پر نہ تو کوئی اخلاقی کنٹرول ہے اور نہ ہی سماجی۔ یعنی مادر پدر آزاد میڈیا پر جس کے بارے میں جو مرضی کہہ ڈالیں یا جس کی مرضی پگڑی اچھال دیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس نئی صورتحال میں سرمایہ دار تو یقینا اپنے کاروبار کی نوعیت تبدیل کر کے اپنے معاملات کو مینج کر لیں گے لیکن ان کارکن صحافیوں کا کیا ہو گا جنہیں کوئی اور کام بھی نہیں آتا کہ اپنی روزی روٹی کا انتظام کر سکیں۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا جتنی مرضی ترقی کر لیں لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اصل صحافت آج بھی پرنٹ میڈیا کی ہی ہے ، جب تک اخبار نہ پڑھا جائے کسی قسم کی خبر یا معلومات پر یقین ہی نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اگر شعبہ صحافت میں کوئی اصول، معیار اور اخلاقی اقدار باقی ہیں تو شائد وہ صرف پرنٹ میڈیا کی وجہ سے ہی ہیں۔
یقینا حکومت اور سرمایہ دار کو کوئی بات سمجھائی تو نہیں جا سکتی لیکن پھر بھی ان کی خدمت میں اتنا عرض کرنا تو ضروری ہے کہ خدارا اس ڈوبتی ہوئی صنعت کو کوئی سہارا دیں۔ حکومتیں بے شمار اداروں کو سالہا سال سے اربوں روپے کی سبسڈی دیتی آ رہی ہے کیا ہی اچھا ہو کہ اگر اس قسم کی نظر کرم اخباری صنعت اور اس سے وابستہ کارکنان پر بھی پڑ جائے۔اور کچھ نہیں تو حکومت کو اتنا تو کرنا ہی چاہیے کہ وہ بے روزگار ہونے والے اخباری کارکنان کو متبادل روزگار فراہم کرنے میں کوئی کردار ادا کرے۔

تبصرے بند ہیں.