بابائے قوم محمد علی جناح نے 10 مارچ 1944 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک خطاب کے دوران کہا تھا ’’کوئی بھی قوم اس وقت تک عروج کی بلندی پر نہیں چڑھ سکتی جب تک آپ کی خواتین آپ کے شانہ بشانہ نہ ہوں‘‘ ساتھ ہی انہوں نے فرمایا تھا ’’ہم بُری رسم و رواج کا شکار ہیں جو انسانیت کے بھی خلاف ہے کہ ہم خواتین کو چار دیواری میں قیدی بنا کر رکھتے ہیں اور انہیں جن حالات میں رہنا پڑتا ہے اسکی کہیں کسی معاشرے میں اجازت نہیں ہے‘‘۔ پاکستان میں خواتین کی حیثیت مردوں کے برابر نہیں ہے کیونکہ معاشرے میں جنسی طور پر تقسیم نظر آتی ہے۔ اسکے اثرات سماجی و اقتصادی ترقی پر بھی نمایاں ہیں۔ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ طبقاتی تقسیم کی وجہ سے خواتین کی زندگیوں میں کافی تنوع ہے۔ خواتین کی صحت سے متعلق مسائل کی بنیادی وجہ بھی پست سماجی، معاشی اور ثقافتی حیثیت ہے۔ اسکے علاوہ مردوں پر انکا معاشی انحصار، انکی نقل و حرکت پر پابندی، صحت کی سہولیات تک بھی مردوں کی امتیازی رسائی اور گھر میں خوراک کی امتیازی تقسیم نہ صرف خواتین بلکہ بچوں میں بھی پیدائشی طور پر غذائیت کی کمی کا سبب بنتا ہے۔
اسکے علاوہ کم عمری کی شادی کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل جیسا کہ زیادہ بچوں کی پیدائش، پیدائش میں وقفہ کا نہ ہونا، ناخواندگی کی بڑھتی سطح یہ سب مل کر خواتین کی صحت پر بہت بُرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ غربت کی بڑھتی ہوئی سطح بھی عورتوں اور بچوں پر ہونے والے تشدد کی شرح میں اضافہ کا سبب ہے۔ خاص طور پر کم آمدن والے گھرانوں میں وسائل کی تقسیم میں منفی امتیاز کافی واضح طور پر سامنے آتا ہے۔ اسکے ساتھ ہی ایسے گھرانوں میں خواتین اپنے خاندان کی کفالت کے لیے زیادہ محنت کرتے ہوئے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں۔ ان تمام مسائل کا سامنا کرتے ہوئے خواتین بہت سے دوسرے امراض کے علاوہ ذہنی دباؤ کا بھی شکار نظر آتی ہیں اسی لیے ایک اندازے کے مطابق نفسیاتی یا ذہنی مریضوں میں سے دو تہائی خواتین ہیں۔ اس طرح کمزور ذہنی اور جسمانی صحت نہ صرف خواتین کو معاشی اور سماجی کاموں میں مثبت کردار ادا کرنے سے روکتے ہیں بلکہ ملکی ترقی پر بھی منفی طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
پسماندہ سماجی طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین کو متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ اکثر صرف گھر سے ہی کام کرنے کے قابل ہوتی ہیں ان ورکرز کو ہوم بیسڈ ورکرز کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں 20 ملین میں سے 12 ملین ہوم بیسڈ ورکرز خواتین ہیں۔ 2016 کی اقوام متحدہ کی پاکستانی خواتین کی اکانومی میں شرکت کے حوالے سے رپورٹ کے مطابق خواتین ہوم بیسڈ ورکرز کے طور پر پاکستانی اکانومی میں 2.8 بلین ڈالر کا حصہ ڈالتی ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا تقریباً نصف خواتین ہیں جو کسی بھی ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ کسی بھی ملکی معاشی ترقی کو صرف صنفی فرق ختم کر کے کافی حد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ اکنامک فورم کے مطابق پاکستان بین الاقوامی صنفی فرق انڈیکس میں 156 ممالک میں 153 نمبر پر ہے۔
مسلسل جدوجہد کے بعد بھی پاکستانی خواتین کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ ورلڈ اکنامک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مزدور خواتین کی تعداد 23 فیصد ہونے کے ساتھ یہ 181 ممالک کی فہرست میں 167 نمبر پر ہے۔ اسکے علاوہ انکی اجرت مرد مزدوروں کے مقابلے میں کم ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 48 فیصد خواتین کو اپنی صحت سے متعلق بات کا حق حاصل نہیں اور زچگی کے دوران موت کے حوالے سے پاکستان بدترین ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے۔ مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے انتہائی سرد رویہ، وسائل کی کمی اور غیر مناسب تقسیم اور صحت کے شعبے میں کم سرمایہ کاری ہمارے ملک میں خواتین کی خراب صحت کی بنیادی وجہ ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو ہر شعبے میں سراہا جائے اور ان کو صحت کے مواقع فراہم کیے جائیں کیونکہ ایک صحت مند خاتون ہی مضبوط معاشرے کی تشکیل کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے، اگر بنیاد کمزور ہو گی تو ملکی ترقی کیسے ممکن ہے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.