اقبالؒ اور علی شریعتی کی تفہیم عشق

95

لفظ خواہ وہ کسی زبان کا ہو بنیادی طور پر دو معنی و مفہوم رکھتا ہے، ایک اس کے لغوی معنی ہوتے ہیں اور دوسرے مجازی معنی۔ لغوی معنی کو زبان کے ماہرین متعین کرتے ہیں اور مجازی معنی کو زمانے کا عرف مقرر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر لفظ۔ ’’شوربہ‘‘ کے لغوی معنی نمک کے پانی کے ہیں لیکن جب ہم عام گفتگو یا تحریر میں اس لفظ کو استعمال کرتے ہیں تو فوراً ایک خاص قسم کے سالن کا تصور ہمارے ذہن میں آ جاتا ہے، لفظ ’’شوربہ‘‘ کے یہ معنی زمانے کا عرف قرار پاتے ہیں۔ لفظ کے ایک معنی اور بھی ہیں جو انسان اپنے کردار و گفتار سے تخلیق کرتا ہے۔ اس نکتہ کو علامہ اقبالؒ نے اس طرح بیان کیا ہے:
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
کسی بھی صاحب شعور کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ روایتی ملا اور مجاہد کی اذاں میں کیا فرق ہے۔ اسی طرح ہم کسی شخصیت کے بارے میں بھی یہ کہتے ہیں کہ اس نے اپنے عمل سے فلاں لفظ کو نئے معنی دئیے ہیں۔ لفظ ’’عشق‘‘ کو ہمارے معاشرے میں جن معنی میں استعمال کیا جاتا ہے وہ اس کے لغوی اور مجازی معنی سے کہیں مختلف ہے چونکہ زمان و مکان کے تقاضے ہر جگہ کے مختلف ہوتے ہیں اور ہمارے زمانے میں انسان جو اس کائنات پر خدا کا نائب ہے اس کو بقول علامہ اقبالؒ:
مست رکھو ذکر و فکر صبحگائی میں اسے
اس قدر الجھا دیا ہے کہ جس سے انسان فقط عشق ہی کیا اپنے مقام اور اپنی صلاحیتوں سے بھی واقف نہیں ہے۔ علامہ اقبالؒ نے عشق و عقل کے الفاظ کو اصطلاحی قالب دے کر ان کے معنی کو ایک نئی جہت عطا کی، عشق کو وحی خداوندی اور عقل کو انسان کے تجرباتی طریق سے منسوب کر کے اہل فکر کے لیے معانی کا ایک نیا جہاں پیدا کر دیا۔
ہر دو امیر کارواں، ہر دو بمنزل رواں
عقل بہ حیلہ می برد، عشق برد کشاں کشاں
ڈاکٹر علی شریعتی ذات کے زندان سے رہائی کے لیے عشق کو لازم قرار دیتے ہیں۔ مگر عشق کی اس اصطلاح کو جو صوفیاء اور اہل عرفان کے مذہب میں رائج اس کو زندان ہی قرار دیتے ہیں۔ شریعتی عشق سے میری مراد وہ قوت عظیم لیتے ہیں جو مصلحت شناسی اور حسابی عقل سے بالا تر ہو۔ جو قوت عظیم کے طور پر انسان کے باطن میں پنہاں ہے، جو اس کے وجود کی گہرائیوں کو اس پر منکشف کرتی ہے۔ یہ وہ باطنی قوت ہے جو انسان کے نفس کی برائیوں کے خلاف بغاوت کرتی ہے۔ زندان ذات داخلی زندان ہے۔ اس لیے اس سے رہائی کے لیے ایسی قوت کی ضرورت ہے جس کا سر چشمہ انسان کے باطن میں ہو اور عشق ایک باطنی قوت ہے۔ اور بقول اقبالؒ
صدق خلیل بھی عشق، صبر حسین بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
مقاصد کے حصول میں جہد مسلسل کا نام عشق ہے، اور جد و جہد میں کامیابی کے تین لازمی تقاضے ہیں جنہیں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ اطاعت خداوندی، ضبط نفس اور نیابت الٰہی۔ ان تقاضوں کی ترتیب بھی یہی ہو گی کیونکہ یہ آپس میں باہم مربوط ہیں، ضبط نفس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کسی قانون کا تابع بھی ہو اور نیابت کے لیے ضروری ہے کہ نفس پر اختیار بھی ہو۔
انسانی مزاج اور انسانی فطرت کا عشق سے کیا تعلق ہے؟ اگر ایک فرد کی جبلت میں عشق ہے تو لامحالہ اس کے مزاج میں بھی عشق ہو گا لیکن اس کے برعکس اگر فقط اس کے مزاج میں عشق ہے تو ضروری نہیں کہ اسکی فطرت میں بھی عشق ہو کیونکہ انسانی مزاج کی کیفیت مستقل ہو ہی نہیں سکتی ہے جبکہ فطرت ایک مستقل عامل کی حیثیت سے انسانی زندگی پر مسلسل اثر انداز ہوتی رہتی ہے۔
عقل اور عشق کے تعلق پر جب ہم غور کرتے ہیں تو عقل اگر عشق پر اثر انداز ہو تو انسان کے ذاتی مفاد کے لیے کام کرتی ہے لیکن جب عشق عقل کو قائل کر لے تو افراد کی فلاح کے لیے ایسے واقعات ظہور ہوتے ہیں کہ قوموں کی تقدیر بدل جاتی ہے۔ مغرب نے جن علوم کو پیش کیا ان کی بنیاد فقط عقل پر رکھی ہے اور عقل کا شعار دوسروں کا چھین کر اپنا بنانا ہے جبکہ اقبالؒ کا عشق دوسروں کے لیے کچھ کر گزرنے کا نام ہے، عقل حیلہ ساز اور عشق سراپا صداقت، عقل اگر مصلحت پسند تو عشق ہر لحظہ شر کی بیخ کنی کے لیے تیار اور بقول اقبالؒ:
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
لیکن اگر عقل، عشق کے بغیر ایک مفید عامل نہیں تو کسی حد تک عشق بھی عقل کا دست نگر ہے، در حقیقت عقل اور عشق کا باہمی تعلق ایسا ہی ہے جیسا کہ آنکھ اور روشنی کا ہے، اگر کوئی فرد اپنی آنکھ سے کام نہیں لیتا تو اس کے لیے روشنی کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے، کیونکہ عشق کو عقل سے جدا کرنا رہبانیت کا شیوہ ہے جبکہ ایمان عشق اور عقل کو لازم و ملزوم قرار دیتا ہے۔ عقل تخلیق کرتی ہے علم کو۔
اس ساری بحث میں یہ بتانا مقصود ہے کہ لفظ ’’عشق‘‘ اپنے اندر ایک جہان معنی رکھے ہوئے ہے، اب یہ فرد پر منحصر ہے کہ وہ عشق سے کیا سمجھا ہے اور اس کے معنی کا اطلاق اپنی زندگی پر کس طرح کرتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.