بڑی منزلوں کے مسافر چھوٹا دل نہیں رکھتے

95

کرہ ارض پر موجود ہر انسان کامیابی کے حصول کے لیے لگاتار محنت اور ناکامی سے بچنے کے لیے نت نئی تدابیر اختیار کرتا ہے۔ کامیابی اور ناکامی زندگی کے اس سفر کے اہم سنگِ میل ہیں، دونوں مختلف مراحل میں انسان کی شخصیت کی تعمیر میں مدد کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ناکامی کبھی شکست نہیں ہوتی بلکہ یہ تو کامیابی کا پہلا زینہ ہوتی ہے اور اگر آپ کبھی ناکام نہیں ہوتے، کبھی کسی مقام پر آزمائے نہیں جاتے تو آپ کبھی کامیاب بھی نہیں ہو سکتے۔ ناکامی کا مطلب صرف ناکام ہونا نہیں ہے بلکہ یہ تو مایوسی اور نا امیدی کا نام ہے۔ جیسا کہ فیض احمد فیض کہتے ہیں۔
دل نا امید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے
ناکامی بظاہر مایوس کن ہوتی ہے لیکن یہ زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے جو انسان کو سیکھنے اور خود کو مزید بہتر بنانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہ انسان کو صبر اور مستقل مزاجی سے روشناس کراتی ہے، اس کے کمزور پہلوئوں کو اجاگر کرتی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہر ناکامی ایک سبق ہے، ہر مشکل ایک امتحان اور ہر رکاوٹ ایک موقع ہے۔ جو ناکامیوں سے سبق سیکھنے کا فن جانتے ہیں وہ کبھی کسی رکاوٹ اور ناکامی کو اپنی کمزوری نہیں بناتے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: اللہ کی رحمت سے مایوس نا ہو، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں (سورۃ یوسف:۸)۔ مایوسی درحقیقت ہماری خواہشات کا ایک سائیڈ ایفکٹ ہے، انسان اپنے حسبِ منشا نتائج نہ ملنے پر بے بسی و لاچاری کی جس کیفیت کو محسوس کرتا ہے اسی کیفیت کا نا م ہی مایوسی ہے۔ کامیابی اور ناکامی کی تعریف ہر انسان کی نظر میں مختلف ہوتی ہے، مایوسی کی اس کیفیت پر قابو پانا، فیصلہ کر کے ڈٹ جانا، اپنے خوف پر قابو پا لینا ہی اصل کامیابی ہے۔ خوف انسان کی صلاحیتوں کو غفلت کے پردے میں مخفی کر دیتا ہے جس کے باعث انسان کی کارکردگی محدود ہو جاتی ہے اور محدود کارکردگی سے لامحدود نتائج کو حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ انسان کی زندگی کو ربِ دو جہاں نے مختلف امتحانوں اور آزمائشوں میں رکھا ہے، اس کی زندگی کا ہر ایک لمحہ، ہر لحظہ، ہر دقیقہ، ہر سانس، ہر حالت ایک امتحان ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: بے شک ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ قدرت نے ہر انسان کے اندر یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ اپنی زندگی کی تمام مشکلات کا سامنا کر سکتا ہے۔ جب تک غم، آزمائش اور ناکامی انسان کی زندگی کا حصہ نا بنے خوشی اور کامیابی کی اہمیت نہیں رہتی، جب تک دھوپ نا ہو چھائوں کی قدر کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ ہر چیز کا تضاد ہی اس کی اہمیت کو اجاگر اور حسن کو دوبالا کرتا ہے۔ بڑی منزلوں کے مسافر کبھی چھوٹا دل نہیں رکھتے، وہ ہمیشہ بڑی سوچ، کشادہ دل اور پختہ یقین کے ساتھ اپنی منزل کو پانے کی جستجو کرتے رہتے ہیں۔ ان کے دلوں میں خوف، تنگ نظری اور مایوسی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ دورِ حاضر میں ناکامی کے بعد ڈپریشن کی وجہ سے دنیا میں روزانہ کئی افراد خودکشی اور خود سوزی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ دنیاوی زندگی اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے۔ ہمارا مقصدِ حیات اللہ کی عبادت اور اطاعت ہے اور اس زندگی تمام پریشانیاں ہماری آزمائش کے لیے آتی ہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور ہم تمہیں دکھ اور سکھ سے آزما رہے ہیں، پرکھنے کے لیے اور تم ہماری ہی طرف لوٹائے جائو گے‘‘۔ ناکامی اگرچہ بظاہر منفی تجربہ لگتی ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو یہی ہمیں زندگی کے اہم سبق سکھاتی ہے۔ ہماری کوشش، محنت اور فیصلوں کو بے نقاب کرتے ہوئے ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم نے کہاں غلطی کی۔۔ دنیا کی ہر بڑی کامیابی کے پیچھے کئی ناکامیاں چھپی ہوتی ہیں، اور یہی ناکامیاں کامیابی کا راستہ ہموار کرتی ہیں۔ عظمت و کامیابی کے سفر میں کٹھن حالات تو آتے ہی رہیں گے، زندگی میں کبھی قیمت ادا کیے بغیر تو کسی کو بھی کامیابی نہیں ملتی۔ انسان جتنی بڑی کامیابی کا خواہاں ہوتا ہے اسے اتنی ہی بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، یہاں ہر کامیابی کے حصول کے لیے عزم و ہمت، محنت و لگن ضروری ہے جس کے ساتھ یقین بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ محنت اور لگن سے ہی انسان اپنے فیصلوں کو تکمیل کے مراحل تک پہنچا سکتا ہے۔ بقول حسرت موہانی:
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
ناکامی بالکل آئینے کی طرح ہوتی ہے جو ہماری کارکردگی اور جدوجہد میں پائی جانے والی کمی و بیشی کی نشاندہی کرتی ہے، در حقیقت ناکامی ہی انسان کی صحیح سمت رہنمائی کرتے ہوئے ہمیں ہماری خامیوں پر قابو پانا سکھاتی ہے۔ ناکامی اور شکست ہی بشر کو بڑا بناتے ہیں، اس کے حوصلوں کو مضبوط اور طاقتور بناتے ہیں۔ جو انسان ناکامی کے ڈر سے نیا قدم اٹھانے سے گھبراتا ہے وہ زندگی کے کسی بھی مقام پر کبھی ترقی نہیں کر سکتا اور ایک ہی مقام پر کھڑا رہ جاتا ہے۔ بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح فرمایا کرتے تھے:’’ناکامی ایک ایسا لفظ ہے جسے میں نہیں جانتا‘‘۔ مطلب یہ کہ انسان کو کامیاب ہونے کے لیے اپنے اندر سے ناکامی کے خوف کو نکالنا ہو گا۔ کوئی ناکامی کبھی انسان کی راہ کی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔۔ ناکامی انسان کو اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کو پہچاننے کا موقع دیتی ہے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ناکامیابی یا حسبِ منشا نتائج حاصل نا ہونے پر افسوس ہوتا ہے، انسان کئی گھنٹے اداس رہتا ہے۔ مگر حضرت علیؓ کا قول ہے: ’’کام کرو اور اسے محنت تک پہنچائو اور اس میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرو‘‘۔ اسی لیے دینِ اسلام نے اپنی تعلیمات میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں کی کہ جاں فشانی، محنت اور کوشش کے بغیر کسی بھی کامیابی کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ فرد، افراد اور اقوام کی زندگی میں ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے محنت اور کوشش لازمی ہیں، کامیابی و کامرانی کی ضمانت محنت و مشقت میں پوشیدہ ہے۔ زندگی میں بڑی کامیابیاں حاصل کرنے کیلئے دل کی وسعت، حوصلہ اور مستقل جدوجہد اشد ضروری ہے۔

تبصرے بند ہیں.