لاریب دھرتی ماں کے سوا ہماری کوئی ’’ریڈلائین‘‘ نہیں ہے۔ یہ الگ بات کہ ایک سیاسی جماعت ایسے شخص کواپنی ریڈلائین قرار دیتی ہے جس نے سیاست میں غلاظت، جھوٹ، نفرت اور غیرپارلیمانی الفاظ کوجنم دیاجو منتقم مزاج اور نرگسیت کاشکار ہے، جو پاکستان کے تین ٹکڑے ہونے، ڈیفالٹ کرکے سری لنکا بننے اور ایٹمی پروگرام کیپ ہونے جیسی منحوس پیشین گوئیاں کرتا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جوفتنہ پرور اور جس کی ساری سیاست انتشاری ہے۔ وہ باربار پاکستان پرہی حملہ آور ہوتا ہے، کبھی 2014ء کے دھرنے کی صورت میںاور کبھی 9مئی کی فوج کے خلاف بغاوت کی صورت میں۔ وہ حکومت چھِن جانے کے بعد اپنی صوبائی حکومتوں، (پنجاب اور خیبرپختونخوا) کے وزرائے خزانہ کوحکم دیتاہے کہ آئی ایم ایف کوخط لکھ کرمنع کیا جائے کہ وہ پاکستان کو قرض مت دے۔ جو ہزاروں ڈالر خرچ کرکے امریکی ایوانِ نمائیندگان میں پاکستان کے خلاف قرارداد پاس کرواتا ہے۔ جو اسرائیل کا محبوب ہے کیونکہ نہ صرف اسرائیل کامیڈیا اُس کے حق میں مضمون لکھتا ہے بلکہ اقوامِ متحدہ میں بھی اُس کے حق میںآواز اُٹھائی جاتی ہے۔ جواپنے سابق برادرِنسبتی یہودی زیک سمیتھ کو لندن کامیئر بنانے کی مسلمان صادق خاںکے مقابلے میں مہم چلاتے ہوئے کہتاہے ’’میں مسلمان صادق خاںکے مقابلے میں یہودی زیک کوبہتر سمجھتا ہوں کیونکہ زیک ایک سچا، ایماندار اور انصاف کرنے والا ہے۔ میں اِسی لیے زیک کے لیے کیمپین کرتا ہوں‘‘۔ یہ وہی زیک ہے جس نے کہا ’’اسرائیل دنیاکے تاریک ترین کونے میں واحد روشنی ہے۔ ہماری خاطر اسرائیل کوجیتنا ضروری ہے‘‘۔ یوں تووہ شخص ریاستِ مدینہ کی تشکیل کاداعی ہے لیکن اُس کے دینی علم کایہ حال ہے کہ وہ قُرآنِ مجیدکا یہ فرمان بھی نہیں جانتا کہ ’’اے ایمان والو تُم یہودونصاریٰ کودوست مت بناؤ، یہ تو آپس میںہی ایک دوسرے کے دوست ہیں، تم میں سے جوبھی اِن میںسے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک اُن ہی میںسے ہے، ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہِ راست نہیں دکھاتا‘‘ (سورۃ المائدہ آیت 51)۔ یہ وہی شخص ہے جسے پاکستان کی سالمیت سے کچھ لینادینا نہیں کیونکہ اُسے تومسلط ہی پاکستان کو برباد کرنے کے لیے کیاگیا ہے۔ اگریہ سب سچ ہے توپھر وہ شخص ہماری ریڈلائین کیسے ہوسکتا ہے؟۔ اُس کے چاہنے والے مگریہ کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ اِس لیے آئیے! 2011ء سے آج (5اکتوبر 2024ئ) تک کا مطالعہ کرتے ہیں۔
اُس شخص کی رونمائی اکتوبر 2011ء میں اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں مینارِپاکستان میں ہوئی لیکن 2013ء کے عام انتخابات میں بُری ہزیمت کے بعد اُس نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ پھراُس نے طاہرالقادری اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام کے ساتھ لندن میں خفیہ ملاقات کی جہاںڈی چوک اسلام آبادپر چڑھائی کا پروگرام مرتب ہوا۔ اِس 126 روزہ دھرنے میںاُس کا ہرعمل آرٹیکل چھ کی طرف جاتاہے لیکن اُس وقت اسٹیبلشمنٹ اُس کی پُشت پرتھی۔ اُسے معلوم تھاکہ چین کے صدر اُنہی دنوں میں پاکستان کے دورے پرآنے والے تھے اِس لیے اُس نے دھرنے کو طویل کردیا اور چینی صدرکو اپنا دورہ ملتوی کرنا پڑا۔ تب چینی صدر گیم چینجر منصوبے سی پیک کااعلان کرنے والے تھے لیکن یہ اعلان سواسال بعد اُس وقت ہواجب چینی صدر پاکستان آئے۔ اگریہ اعلان 2014ء میں ہوجاتا تو آج پاک چائینہ راہداری آپریشنل ہوچکی ہوتی۔ اپنے ساڑھے 3سالہ دورِحکومت میں اُس نے اِس منصوبے پرعمل درآمد روک دیا۔ اب ایک دفعہ پھراُس نے اپنے حواریوں کو 4اکتوبر کو ڈی چوک پہنچ کردھرنا دینے کاکہا ہے۔ اُس نے وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کوحکم دیاہے کہ وہ بہرصورت ڈی چوک پہنچے گا خواہ اِس میں کتنے ہی دن لگ جائیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ 4اکتوبر کو ملائیشیا کے وزیرِاعظم انور ابراہیم پاکستان کے دورے پر تھے۔ اِس سے بھی بڑھ کر 15اور 16اکتوبر کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہورہا ہے جس میں چین کے وزیرِاعظم کے علاوہ کئی ممالک کے سربراہان بھی تشریف لارہے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان کیلئے ہے جو لاڈلے کو منظور نہیں کیونکہ وہ تو چاہتاہی یہی ہے کہ پاکستان معاشی طورپر برباد ہوجائے۔ اہلِ فکرونظر 2014ء اور موجودہ دھرنوں کی ٹائمنگ کو گہری نظرسے دیکھ رہے ہیں۔ وزیرِداخلہ محسن نقوی نے تحریکِ انصاف سے باربار اپیل کی ہے کہ وہ اپنا احتجاج 17اکتوبر تک ملتوی کردیں کیونکہ یہ پاکستان کی عزت کا معاملہ ہے لیکن اُن کی یہ درخواست حقارت سے رَد کردی گئی۔
اب پورا اسلام آباد اور مضافات کنٹینروں سے بھر چکے ہیںاور اسلام آباد کوفوج کے سپرد کردیا گیاہے۔ شنگھائی تنظیم کانفرنس کی وجہ سے حکومت کسی بھی صورت میں تحریکِ انصاف کے مسلح شَرپسندوں کو اسلام آباد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ آمدہ اطلاعات کے مطابق اسلام آباد میں اِس وقت مختلف جگہوں میں 600 کنٹینر موجود ہیںجبکہ ایک کنٹینر کایومیہ کرایہ 3ہزار 5سو روپے ادا کیاجا رہاہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں کاروبار معطل ہونے کی وجہ سے روزانہ 10ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے جبکہ ملک کے معاشی حالات پہلے ہی دگرگوں ہیں۔ اُدھر خیبرپختونخوا کا وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور حکومتی مشینری کابے دریغ استعمال کرتے ہوئے 1122کی ایمبولینسز، کرینوں اور مسلح جتھوں کے ساتھ آیا ہے۔ وزیرِداخلہ محسن نقوی کے مطابق اِن مسلح افراد میں افغانی بھی شامل ہیں۔ ایسے میںاگر کوئی کہے کہ تحریکِ انصاف اپنے آئینی حق کے مطابق پُرامن احتجاج کررہی ہے تووہ احمقوں کی جنت میں بستا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے حکم کے مطابق ایک صوبے کامرکز پر براہِ راست حملہ ہے۔
اب آئین کے آرٹیکل 245کے تحت اسلام آباد اور مضافات میں فوج نے کنٹرول سنبھال لیاہے۔ یہ فوجی دستے 17اکتوبر تک تعینات رہیں گے تاکہ شنگھائی تعاون تنظیم کااجلاس پُرامن طریقے سے اختتام پذیر ہوسکے۔ اسلام آبادپر چڑھائی کرنے سے پہلے علی امین گنڈاپور نے اپنے خطاب میں مرکزی حکومت کو للکارتے ہوئے کہاتھا ’’تم ایک گولی چلاؤ گے، ہم 10گولیاں چلائیں گے۔ اِن شرپسندوں کے عقب میں خیبرپختونخوا سے فوج کے دستے منگواکر تعینات کردیئے گئے ہیں۔ گویا اِن شرپسندوں کو فوج نے دونوں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ خیبرپختونخوا کا گورنر فیصل کُندی اسلام آبادمیں وزیرِاعظم سے ملاقات کرچکا۔ اِس ملاقات کے بعد خیبرپختونخوا میں گورنرراج کی سرگوشیاں جنم لے رہی ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.