مزیدضروری اور مجبوری۔۔۔!

52

گزشتہ ہفتے میں نے ضروری اورمجبوری کے عنوان سے کالم لکھا ۔کالم کیا تھا بے بس شہریوں کا نوحہ ہی تھا۔میں نے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات پر ریسرچ کرکے کچھ مقدمات کا خلاصہ پیش کیا توجاننے اور کئی نہ جاننے والوں نے رابطے کیے ۔ایسے مقدمات کی وجہ سے تباہ ہوتے خاندانوں کی داستانیں کہیں ۔میرے دوست اور سینئر صحافی عمیر محمود نے تجویز کم حکم دیا کہ آپ مزید مقدمات کو سامنے لائیں اور قسط وار یہ سلسلہ شروع کریں۔اس وجہ سے میں نے سپریم کورٹ میں پڑے دس سال پرانے مزید مقدمات سے گرد جھاڑنا شروع کردی ۔
معلوم نہیں کہ اب ایکٹو ہے یا نہیں لیکن سپریم کورٹ نے سو موٹو لینے کے لیے ایک ’’ہیومن رائٹس سیل‘‘ بنالیا تھا ۔سیاسی نوعیت کا کوئی مقدمہ چلانا ہوتا وہ اس سیل کے ذریعے پٹیشن میں بدل کر حکمرانوں کو لائن حاضر کردیا جاتا ۔جسٹس ثاقب نثار تک یہ سیل ایکٹو تھا ۔آج دس سال بعد بھی اس سیل کے ذریعے شروع کیے گئے مقدمات زیر التوا ہیں ۔کچھ مقدمات کا ذکر گزشتہ کالم میں کیا تھا اور اب ہیومن رائٹس سیل کے ہی کچھ اور بھی کیس دیکھنے کا موقع ملا۔مجھے تین ایسے مقدمات ملے جن کے عنوان۔درخواست آف محمد ریاض۔درخواست آف محمد افضل اور درخواست آف صدیق ہے۔ ان مقدمات کی سماعت بھی 2015میں شروع ہوئی اورآخری سماعت مارچ 2020 میں ہوئی۔اس کیس کی بیس سماعتیں ہوئیں اورسپریم کورٹ کے تمام ججز نے اس کو باری باری سنا لیکن 2020 میں اس کو بریک لگ گئی اس کے بعد یہ کیس کیوں نہیں لگا ؟اس سوال کا جواب بھی تو عوام کو چاہئے ۔یہ مقدمہ اگر اہم نہیں تھا تو پانچ سال سماعتیں کیوں ہوتی رہیں اور اہم تھا تو دس سال سے زیرالتوا کیوں ہے اس کا کوئی فیصلہ کیوں نہیں دیا گیا؟اس سوال کا جواب سپریم کورٹ کی کسی فائل میں مجھے نہیں ملا۔
جیل اپیلوں کا حال سب سے ابتر ہے ۔یہ اپیلیں جیلوں میں قید مجرموں کی ہیں۔ وہ مجرم جو سپریم کورٹ سے بری ہونے اور زندگی کی امید لگائے لگائے یا تو اگلے جہان پہنچ رہے ہیں یا پھر اپنی سزائیں پوری کرتے جارہے ہیں ۔ان عذاب جھیلتے خاندانوں کی کسی سپریم کورٹ کو پریشانی نہیں ہے۔انہیں میں سے ایک کیس خیبرپختونخوا کی جیل میں قید دلبر جان کا ہے ۔اس کیس کا نمبرجے پی 291/2015ہے ۔یہ ایک تکلیف دہ کیس ہے ۔دلبر جان اتنا غریب ہے کہ اس کے پاس کیس لڑنے یا وکیل کرنے کے بھی پیسے نہیں ہیں ۔ بے یارومدد گار اس قیدی نے جیل حکام کے ذریعے منت ترلہ کرکے سپریم کورٹ تک اپنی اپیل 6اگست 2015کو پہنچا دی لیکن اس غریب پاکستانی کو کیا خبر کہ ہماری سپریم کورٹ کے پاس حکومتیں گرانے اور بنانے کا اہم ٹاسک بھی ہے اور وزرائے اعظم کو گھر بھجوانے کا فریضہ بھی ہے لیکن دلبر جان نے ہمت کرکے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا ہی دیا۔نتیجہ وہی ہوا کہ چھ سال گزر گئے اور سپریم کورٹ کو دلبر جان کی تکلیف سننے کی فرصت ہی نہی ملی ۔پھر پانچ سال بعد ایک بینچ بنا۔یہ بینچ جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور قاضی امین الدین کا تھا ۔اس بینچ میں دلبر جان کا کیس 29جولائی 2021کو فکس ہوگیا ۔معزز مائی لارڈز کو بتایا گیا کہ اپیل کنندہ کے پاس وکیل کرنے کے بھی پیسے نہیں ہیں ۔اس پر معزز ججز نے دریادلی سے کام لیا اور حکم دیا کہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ اسماعیل خان بطور سرکاری وکیل دلبر جان کا کیس لڑیں گے ۔یہ حکم دے کر سماعت ملتوی کردی گئی ۔2021سے 2024آگیا ہے ۔کیس دوبارہ فکس نہیں ہوا۔پتہ نہیں دلبر جان زندہ بھی ہے یا نہیں۔ بینچ بنانے کی کمیٹی پر جھگڑتے منصفوں کو خبر ہے کہ کسی دلبر جان کا مقدمہ ان کی لڑائی سے کتنا اہم اور ضروری ہے؟
محمد حنیف بنام ریاست پنجاب کی جیل سے سپریم کورٹ پہنچنے والی اپیل ہے ۔محمدحنیف بھی دلبر جان کی طرح قسمت کا ’’ماڑا‘‘ ہی ہے بے چارہ ۔اس کی اپیل کا نمبرجے پی 337/2015ہے۔یہ کیس سپریم کورٹ میں 11اگست 2015میں داخل کیا گیا۔پانچ سال یہ کیس بھی سپریم کورٹ میں باقی پچاس ہزار مقدمات کے ساتھ فکس ہونے کے انتظار میں پڑا رہا پھر 2020میں تین رکنی بینچ بنا ۔جسٹس منظوملک سربراہ،جسٹس منصور علی شاہ اور امین الدین رکن تھے۔یہ کیس 16مارچ 2020کوپہلی بار سنا گیا اور یہی پہلی باری اس کیس کی سنوائی کی آخری باری بھی بن گئی ۔یہ کیس 5سال سے زیر التوا ہے اور پنجاب کی جیل میں قید محمد حنیف سپریم کورٹ میں اس جاری تقسیم تماشے کو دکھ بھری نظروں سے دیکھ کر سوال کرنے پر مجبور ہے کہ کیا میں اس ملک کا شہری نہیں ہوں؟ کیا مجھے انصاف کی ضرورت نہیں ہے ؟کیا یہ ریاست اور اس کے منصف میرے جیل میں مرنے کا انتظار کررہے ہیں؟محمد حنیف کے ان سوالوں کا جواب کیا کسی منصف کے پاس ہے؟ منصور علی شاہ صاحب جنہوں نے پانچ سال پہلے جب محمد حنیف کا مقدمہ سناتھا تو وہ ایک جونئیر جج تھے آج وہ سب سے سینئر ہیں کیا ان کو یاد ہوگا کہ انہوں نے پانچ سال پہلے کسی محمد حنیف کے مقدمے کی سماعت ملتوی کی تھی؟
گزشتہ کالم کے بعد کرنل ریٹائرڈ لیاقت طورنے کیس سامنے رکھا۔یہ خورشید آفریدی تھے ،جرمنی سے کم بیٹ کی ٹریننگ،ایس ایس جی انسٹرکٹر۔فوج سے کرنل ریٹائرہوئے۔حکومت کی درخواست پر پرائیویٹ نوکری چھوڑی تو پنجاب کی اسپیشل برانچ میں ایس ایس پی لگایاگیا۔انہوں نے دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کیا تو پولیس مقابلے میں ایک قتل کا مقدمہ بنا۔سیشن کورٹ نے ایس ایس پی خورشید آفریدی کو دس سال قید کی سزا سنادی۔ فوج سے ریٹائرکرنل اور حاضر سروس ایس ایس پی نے لاہور ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف اپیل دائر کی لیکن یہاں بھی اپیل کا حشر دلبر جان اور حنیف کی اپیلوں جیسا ہی ہوا۔دس سال گزر گئے لیکن عدالت نے اس کیس کا کوئی فیصلہ نہ کیا ۔خورشید آفرید ی نے دس سال جیل میں گزارے ۔زیر سماعت اپیل کے دوران ہی سزاپوری ہوئی ۔نوکری چلی گئی ۔بطورمجرم اور سزا یافتہ ہونے کا داغ برداشت نہ کرپائے اور انتقال کرگئے۔کیا کوئی عدالت سے پوچھ سکتا ہے کہ دس سال ایک شخص کے مقدمے کافیصلہ کیوں نہیں کیا؟ اورایک سولجر کو مجرم کی زندگی گزارنے پرمجبورہونا پڑا؟
بلاول بھٹونے کراچی بدامنی کیس کا تذکرہ کیا ۔یہ کیس منصفوں کے عدل وانصاف کی ایک الگ ہوش ربا داستان ہے ۔کوئی آئینی عدالت بنے یا نہ بنے لیکن کیا سپریم کورٹ کے پاس لاکھوں زیرالتوا مقدمات اوران کے خاندانوں کے لیے کوئی مطمئن کرنے والا جواب ہے؟ پھر اگر پارلیمنٹ جواب تلاش کرنا چاہتی ہے تو رکاوٹ کیوں؟

تبصرے بند ہیں.