تاریخ پہ تاریخ

102

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں کے ایک سیدھے سادھے زمیندار کا کچھ زمین کا مسئلہ بن گیا، فریقین کے مابین تو تو میں میں ہاتھا پائی کی صورت اختیار کر گئی اور پولیس بلا لی گئی، پولیس نے معاملہ رفع دفع کرانے کی ناکام کوشش کی اور پھر کیس عدالت میں چلا گیا، عدالت نے حسبِ عادت تاریخ پہ تاریخ دینا شروع کر دی، عمرِ رواں کے برس بیتتے گئے اور زمیندار لاٹھی پہ آ گیا تب جا کر کہیں فیصلہ ہو پایا، حضرت جج صاحب نے بڑے تفاخر سے زمیندار کو مخاطب کیا اور ارشاد مبارک فرمایا ”چاچا میں تہاڈا کیس حل کر دتا تسی کج کہنا چاہو گے؟“ چاچا نے ہلکا سا کھانس کے گلا صاف کیا اور گویا ہوئے ”تیری مہربانی پتر رب سوہنا تینوں وڈیاں ترقیاں دیووے، تینوں ایس ایچ او بھرتی کراوے“۔ جج صاحب اپنی شان میں اس گستاخی پہ تلملا اٹھے، کہنے لگے چاچا ایس ایچ او عہدے وچ میتھوں نکا اے، بیچارہ بھولا سا چاچا بولا نہ پتر اوس نے پنجی ورہے پہلے کیہا سی مینوں پنج سو ہزار دیوو میں مک مکا کرا دیناں، اوہی مک مکا کران وچ تسں ی پنجی ورہے وکھرے لائے، کچہری دے چکر وکھرے لوائے، وکیلاں دے خرچے وی کرائے تے فیصلہ اوہی سنا کے رولا مکایا جیہڑا ایس ایچ او موقع تے مکان لگا سی۔۔۔ یہ تو تھی ایک لوک داستان، لیکن دیکھا جائے تو یہ فقط لوک داستان نہیں کہانی گھر گھر کی ہے، کئی لوگ پیشیاں بھگتتے بھگتتے خود بھگت جاتے ہیں، کئی اپنی دسویں برسی پہ انصاف حاصل کرتے ہیں اور کئی تاحال اگلی پیشی پہ جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں، انگریزی کا ایک مقولہ ہے ”جسٹس ڈیلیڈ از جسٹس ڈینائڈ“ لیکن ہمارے ہاں بد قسمتی سے الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ مقدمات کا التوا انصاف کے متمنی افراد پر گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کرتا ہے یہ اِلتوا متاثرہ افراد کے لیے طویل مدتی مایوسی، ڈپریشن اور
پریشانی کا باعث بھی بنتا ہے۔ سپریم کورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق، 2 فروری سے 25 فروری 23 تک کل 24303 مقدمات کا فیصلہ کیا گیا جبکہ مذکورہ مدت کے دوران 22018 نئے کیسز دائر کیے گئے۔ اگر معزز جج صاحبان کی مراعات اور کارکردگی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو دونوں میں بہت حد تک تفریق نظر آتی ہے۔ مراعات کا تناسب نمٹائے جانے والے کیسز سے کہیں زیادہ ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد، ایک چیف جسٹس کو ان کی آخری تنخواہ کے 85 فیصد پنشن ملتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بغیر کرائے کے سرکاری رہائش، مفت سہولیات (بجلی، پانی، گیس)، ایک ڈرائیور، سکیورٹی گارڈ، 400 لٹر پیٹرول کے ساتھ ایک گاڑی، اعلیٰ عدالتی الاؤنس، انکم ٹیکس سے چھوٹ اور مفت ہوائی سفر۔ سپریم کورٹ کے ججز (پنشن اور استحقاق) آرڈر 1997 کے پیراگراف 25 (1) (سی) میں کہا گیا ہے کہ اس عدالت کا ہر سابق چیف جسٹس اور جج ماہانہ 2000 یونٹس بجلی بل سے مستثنیٰ ہو گا۔ میں تاحال کسی قانونی آرڈر میں وہ شق تلاش کرنے سے قاصر ہوں جس میں لکھا ہو کہ جج کا کام پرائیویٹ ہسپتال کی فیس کے تناسب کا تعین کرنا ہو یا ڈیم کے لیے چندہ جمع کرنا ہو۔
جوڈیشل ایکٹوزم نام کی اصطلاح سے تقریباً سبھی واقف ہیں، لاکھوں کی تعداد میں پینڈنگ کیسز چھوڑ کر بیس لاکھ تنخواہ لینے والے جج صاحب کبھی ڈیم بنا رہے تھے تو کبھی ہسپتالوں پہ چھاپے مار رہے تھے، اور تو اور پی کے ایل آئی کو احسن طریقے سے چلانے کے لیے باہر سے لائے گئے انتہائی قابل اور سینئر ڈاکٹر پہ برس پڑے کہ قوم فاقے کر رہی ہے آپ کو شرم نہیں آتی دس لاکھ تنخواہ لیتے ہوئے؟ بھلا مانس بول پڑا کہ صاحب جو میں باہر کماتا ہوں یہ اس کے مقابلے مونگ پھلی کے دانے بھی نہیں، اب کوئی منہ پھٹ ڈاکٹر ہوتا تو کہتا چچا آپ بیس لاکھ لیتے ہیں، مراعات الگ، گھر سرکاری، بجلی گیس پٹرول فری، اور یہ اب ریٹائرمنٹ کے بعد بطور جہیز بھی لے جائیں گے، آپ اپنی چونچ ہسپتال میں پھنسانے کے بجائے کیس نبٹائیں، بھلا ہو جج صاحب کی غیر ضروری مداخلت کا پی کے ایل آئی پراجیکٹ اس طرح سے پھل پھول ہی نہیں پایا جیسا سوچا گیا تھا، قابل ڈاکٹر اس شاندار عزت افزائی پہ بستہ اٹھا کر واپس روانہ ہو گیا اور ہم آج بھی جگر کے ٹرانسپلانٹ کے لیے براستہ دبئی انڈیا جا پہنچتے ہیں۔
پھر 2018 کے الیکشن کی رات ایک جج صاحب رات میں کورٹ کھول بیٹھے، شاہد خاقان عباسی کی دوبارہ گنتی کی درخواست مسترد کر دی، 2022 تلک تحریک انتشار کے علاوہ کسی اور پارٹی کا کیس سننا گوارا نہ کیا، سوال یہ ہے کہ تب الیکشن چوری کے علمبردار کہاں تھے؟ تب جمہوریت کے متوالے آخر کون سی بوٹی پھونک کر سو رہے تھے؟ دنیا کی کسی عدالت کے کسی منصف پر اس کے اہل خانہ، دوست احباب یا کسی دوسرے ادارے کا دباؤ نہیں ہوتا، ہمارے ہاں زوجہ ماجدہ کی دور کی ماسی کے تایا کے بیٹے کے دوست کا بھی انفلو اینس سیدھا جا کے سپریم کورٹ کے ججز پہ جتا رہا ہے۔ ادھر پاناما فیصلے کے وقت بنچ کے اہل و عیال سج دھج کر عدالت میں فیصلہ سننے بیٹھے تھے، جو کہ قانونی آئینی، اخلاقی اور شرعی لحاظ سے ایک شرمناک فعل تھا۔ 2016 سے اگلے چھ سات برس تک ”ہم خیال بنچوں“ کا تصور اپنے عروج پہ رہا، نثار اور بندیال دور میں بنچ بنتے ہی آپ فیصلے کا تعین کر لیتے تھے، صرف ایک مردِ مجاہد اس روایت کے خلاف تھا، فائز عیسیٰ جس نے ”فل کورٹ“ کو بحال کیا۔ آپ کے تعفن زدہ معاشرے نے اسی شخص کی نہ صرف ہتک کی بلکہ بڑھ چڑھ کر اس بیکری پہ پہنچنے لگے کہ جیسے وہاں شیرینی بٹ رہی ہو۔ ایک بارہویں فیل شخص جب ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باکردار شخص کے سامنے صرف ایک انتشاری جماعت کی حمایت میں زبان درازی کرے تو شاید یہ معاشرہ اسی قابل ہے کہ یہ اپنے جیسے منصفین کے ہاتھوں تاریخ پہ تاریخ بھگتتا رہے۔

تبصرے بند ہیں.