پاکستان اس وقت جن خطرات سے دوچار ہیں اس میں بہت ضروری ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کچھ ایسے نکات جن پر عمل کر کے قوم و ملت کی خدمت کی جا سکتی ہے، پراکٹھے ہو اور اس میں خاص بات یہ ہے جو کہ آج وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ جب تک غیر ممالک کے سربراہان اور اعلیٰ سطح کے وفود اسلام آباد میں آتے رہیں اس وقت تک کوئی بھی سیاسی جماعت اسلام آباد میں ایسی کوئی ایکٹیوٹیز نہ کرے جس سے ایسا لگ رہا ہو کہ اسلام آباد کو فتح کرنے کے لیے کسی بھی سیاسی پارٹی نے چڑھائی کی ہے تو اس موقع پر میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی سے ملتمس ہوں کہ وہ کوئی بھی ایسا پروگرام جس میں کسی بھی ملک کے سربراہ یا تجارتی وفود نے پاکستان تشریف لانی ہو وہ اپوزیشن سے شیئر کریں اور خاص کر جب بھی کوئی صدر وزیراعظم غیر ملکی پاکستان کا دورہ کریں اس دورہ میں اپنے ساتھ اپوزیشن کے اراکین کو بھی ان کے استقبال کے لیے اور جو ملکی فوائد میں معاہدات کیے جاتے ہیں شامل کریں تو ممکن ہے یہ رواج چل نکلے کہ جب بھی کوئی ملک میں غیر ملکی سربراہ موجود ہو تو کسی قسم کا احتجاجی مظاہرہ دھرنا یا جلسہ جلوس نہ کیا جائے اس میں پہل حکومت کو کرنی ہے کہ اپوزیشن احتجاج کر سکتی ہے اور کن مخصوص جگہوں پر وہ جلسہ کر سکتی ہے تحریک انصاف نے جب جلسے کے لیے اجازت مانگی اسلام آباد میں تو کئی کئی ہفتوں تک اس کو اجازت نہیں دی گئی اگر اجازت اسلام آباد اور لاہور میں دی گئی ہے تو وہ جلسہ سے چند گھنٹے پہلے ملی ہے جس سے نہ تو پاکستان تحریک انصاف کسی قسم کا اچھی سطح پر انتظام کر سکتی ہے اور حکومت اجازت دینے کے باوجود جلسہ گاہ کو جانے والے تمام راستے کنٹینر لگا کر اور ہزاروں کی تعداد میں پولیس کے نوجوانوں کو کھڑا کر کر سیل کر دیتی ہے تاکہ جلسہ گاہ تک ہوا بھی کھل کر نا پہنچ سکے جب حکومت ایسے احکامات جاری کرے گی تو پھر اپوزیشن سے بھی کوئی بھلے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ تحریک انصاف کے لاکھوں کارکنان جو احتجاجی تحرک میں شامل ہوتے ہیں پولیس کی بربریت کا شکار ہو رہے ہوتے ہیں اس موقع پر میں وزیراعظم میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف اور وزیر داخلہ محسن نقوی صاحب سے ملتمس ہوں کہ وہ جلسے جلوس دھرنوں اور غیر ملکی مہمانوں کی آمد کے سلسلے میں ون پوائنٹ ایجنڈا پر اپوزیشن سے مذاکرات کریں اور انہیں اسلام آباد لاہور کوئٹہ پشاور اور کراچی کے علاوہ پاکستان کے دیگر بڑے شہروں فیصل آباد سیالکوٹ گوجرانوالہ قصور ساہیوال اوکاڑہ ملتان بہاولپور ڈیرہ غازی خان جہلم اٹک کے
علاوہ جتنے بھی بڑے بڑے اضلاع ہیں وہاں پر جلسہ گاہ کے لیے ایک جگہ مخصوص کی جائے اور اس جگہ پر حکومت یا اپوزیشن کوئی پارٹی بھی جلسہ کرنا چاہے تو اسے درخواست دینے کے فوری بعد اجازت مل جانی چاہیے جیسے دیکھنے میں ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی جلسوں کے ٹائم کوئی مقرر نہیں کیے جاتے تھے اور 45-50 شرائط بھی نہیں لگائی جاتی تھی کیونکہ سیاسی پارٹیوں میں جلسے کوئی شادی بارات یا ولیمے کی دعوتیں نہیں ہوتی جو کہ شادی ہالوں میں 10 بجے سے پہلے بند کر دی جاتی ہے ہونا تو یہ چاہیے حکومت کسی بھی سیاسی پارٹی کو جلسہ کرنے کی اجازت دیتی ہے تو اس پارٹی کے لیے سہولیات پیدا کرے تاکہ سیاسی کارکن آسانی سے جلسہ گاہ احتجاجی مظاہرے یا دھرنا میں پہنچ سکیں لیکن یہاں تو الٹ گنگا بہہ رہی ہے اجازت بھی دے دی جاتی ہے اور پھر آنسو گیس شیل ڈایریکٹ فائرنگ ربڑ کی گولیوں اور ڈنڈوں سے آنے والے سیاسی کارکنوں کا استقبال کیا جاتا ہے دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ اب تو ضعیف العمر خواتین وحضرات کو بھی پولیس کسی بھی جلسہ جلوس یا احتجاج میں دیکھتی ہے تو ان پر بھی حکومت کی طرف سے جو دباؤ ہوتا ہے بزرگوں کو بھی پولیس والے دھر لیتے ہیں اور پھر حکومت کے لیے جگ ہنسائی کا سامان بنتا ہے تو میں اس موقع پر اپوزیشن کے رہنماؤں اور خاص کر تحریک انصاف پاکستان کے بانی جناب عمران خان سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ آپ تحریک چلائیں لیکن جب آپ کا کہنا ہے کہ ہم اجازت لے کر جلسہ جلوس کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ اپنے نمائندوں کو یہ ضرور سمجھائیں کہ وہ احتجاجی جلسہ جلوس یا دھرنا کرنے سے پہلے انتظامیہ سے رابطہ کر کے جگہ کا تعین کر لیں تو اس سے حکومت اور اپوزیشن کے علاوہ پاکستان کی عوام کو بھی فائدہ ہوگا نہ تو کروڑوں روپے لگا کر حکمران کنٹینر لا کر راستوں کو بلاک کریں گے جس کی وجہ سے پاکستان کے شہری کسی بھی کام کے لیے جب اپنے گھروں سے نکلتے ہیں تو وہ خاص کر اسلام آباد لاہور اور کراچی کو دیکھتے ہیں تو انہیں یہ لگتا ہے کہ اب پاکستان کے ان بڑے شہروں میں بھی کراچی کی طرح بندرگاہیں بن چکی ہے جس پر سامان لینے کے لیے کنٹینر لا تعداد سڑکوں پر پھیلا دیئے جاتے ہیں جس سے ایک تو کنٹینر مالکان جو کہ دہائی دیتے ہیں کہ ہمارے کنٹینر بغیر کسی جرم کے پکڑ لیے جاتے ہیں اور ہمیں کسی قسم کی کوئی ادائیگی نہیں کی جاتی جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے خصوصی طور پر گزشتہ روز جو راولپنڈی میں تحریک انصاف کا احتجاج روکنے کے لیے کنٹینر جن راستوں پر لگائے ان کا بل کروڑوں روپے حکومت سے وصول کیا گیا اسی طرح جب بھی پاکستان تحریک انصاف پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں جلسہ یا جلوس یا احتجاجی مظاہرہ کرتی ہے تو وہاں پر اس کو ناکام بنانے کے لیے انتظامیہ کی طرف سے کروڑوں روپے کے بل حکومت کو پیش کر دیئے جاتے ہیں جبکہ حکومت نے پہلے ہی پولیس کے لیے بے انتہا رقوم امن و امان کے سلسلے میں رکھی ہوئی ہیں جس سے انہوں نے نئی گاڑیاں نئے آنسوگیس شیل اور ربڑ کی گولیاں خرید رکھی ہوتی ہے بعض دفعہ تو سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ آنسو گیس شیل جن کی تاریخ گزر چکی ہوتی ہے وہ بھی چلا دیئے جاتے ہیں جس سے طرح طرح کی بیماریاں پھیلتی ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں یہ تمام وہ باتیں ہیں جن سے بچنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا اور خاص کر حکمرانوں نے جن اشخاص کو نو مئی میں یا کسی اور سیاسی سزا کے لیے گرفتار کرنا ہوتا ہے تو وہ مہذب پولیس بنے وہ نہ تو راتوں کو دیواریں پھلانگ کے اور نہ ہی چادر اور چار دیواری کا پردہ چاک کرے اس طرح پاکستان کی حکومت کی جو بدنامی ہو رہی ہے اس میں کمی آئے گی اور وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ جو کہ اپنے اپ کو خواتین کی نمائندہ سمجھتی ہیں اور ان کی بھی موجودگی میں جب ایسی کارروائیاں ہوں گی وہ بھی شرمندگی سے نہیں بچ سکیں گی۔ اس لیے میری گزارشات پر اگر عمل کر لیا جائے تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی عزت میں اضافہ ہوگا اور عوام اب جس طرح سے پولیس کو دیکھتے ہیں وہ نفرت بھری نگاہیں ہوتی ہیں اس سے بچنے کے لیے پولیس کو بھی اپنا رویہ پہلے سلام پھر کلام کو دوبارہ روایت دینا ہوگا اور جس طرح آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور ڈٹ کر اور دونوں پاؤں باندھ کر جھوٹ بولتے ہیں کہ ہم تو کسی بھی شخص کو بلا وجہ گرفتار نہیں کرتے اور عدالتوں میں بھی جا کر وہ بڑی بے شرمی سے جب یہ بیان دیتے ہیں اور عدالت کے شرمندہ کرنے پر بھی شرمندہ نہیں ہوتے اور صبح پھر وہی کام کیا ہوتا ہے حکومت اس خوف سے کہ لوگ تحریک انصاف کے جلسوں جلوسوں احتجاج اور دھرنوں میں بھرپور شرکت نہ کریں خوف زدہ ہو کر آج کل پکڑ دھکڑ کر رہی ہے اور جس کو بھی پکڑتے ہیں اس کے خلاف نہ تو کوئی ایف ائی ار اور نہ ہی کوئی مقدمہ ہوتا ہے اس لیے آئی جی پنجاب سے بھی میری گزارش ہے کہ سیاسی حکومتیں وہ مریم نواز شریف کی ہو وہ عثمان بزدار کی ہو یہ ختم ہو جاتی ہیں لیکن پولیس کا کام اور دیگر سرکاری محکموں کے کارکن اپنی نوکریوں پر بدستور قائم رہتے ہیں لیکن ایک فرق ضرور پڑتا ہے کہ عوام پولیس کے رویے کو اچھے اور برے لفظوں میں ضرور یاد رکھتے ہیں خدا کا خوف کھائیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.