ترامیم ہونے یا نہ ہونے پر کیا ہو گا

45

آئینی ترامیم کے حوالے سے ماحول شانت نہیں ہو رہا اور اگر ایک طرف حکومت یہ چاہتی ہے کہ ہر صورت آئین میں ترامیم ہو جائیں تو دوسری جانب حکومت مخالف جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ ہر صورت ان ترامیم کو روکا جائے لیکن اب 63-Aپر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ سارا کھیل بس چند دنوں کا رہ گیا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ آئینی ترامیم کے حوالے سے الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے تو غلط نہ ہو گا۔اس فیصلے سے کچھ دیر پہلے تک مولانا فضل الرحمن کہہ رہے تھے کہ ہم اس کیس میں فل کورٹ کے لئے درخواست دیں گے لیکن جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آ گیا تو انھوں نے اسے قبول کر لیا لیکن اب حکومت کو کہہ رہے ہیں کہ وہ کچھ دنوں کے لئے ان ترامیم کو موخر کر دے۔ اب کوئی مولانا صاحب سے پوچھے کہ جناب آپ کیا حکومت کو اتنا احمق سمجھتے ہیں کہ انہیں یہ بھی پتا نہ چلے کہ آخر آپ کی اس انتہائی معصومانہ خواہش کا کیا مطلب ہے۔ حکومت تو چاہے گی کہ پہلی فرصت میں یہ ترامیم ہو جائیں اور اگر فرض کر لیں حالانکہ ہماری رائے میں ایسا ہو گا نہیں لیکن فرض کر لیں کہ اس فیصلے کے بعد بھی حکومت کے پاس آئینی ترمیم کے لئے بندے پورے نہیں ہوتے تو پھر اس کے بعد بہترین راستہ یہ ہو گا کہ وزیر اعظم اپنی کابینہ کے ارکان کے ساتھ اڈیالہ جیل جائیں اور بانی پی ٹی آئی کے سامنے سرنڈر کر دیں کہ ہم سے کاروبار مملکت نہیں چلتا بلکہ زیادہ بہتر الفاظ یہ ہوں گے کہ ہم حکومت چلانے کے اہل نہیں ہیں لیکن جیسا کہ عرض کیا ایسا نہیں ہو گا اور حکومت کی کوشش ہو گی کہ اگلے ہفتہ میں آئینی ترامیم والے قصہ کو تمام کر دے۔ اس حوالے سے کچھ ترامیم کہ جن میں ججز کی عمر بڑھانا بھی شامل ہے ان سے حکومت پیچھے ہٹ گئی ہے لیکن جو نئی آئینی عدالت قائم ہو گی ان کے ججز کی عمر 68سال ہو گی۔
ترامیم تو امید ہے کہ ہو جائیں گی لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ اس حوالے سے دونوں فریق آپے سے باہر ہو رہے ہیں۔ بلاول کہتے ہیں کہ اگر ترامیم 25اکتوبر تک ہو جاتی ہیں تو پر امن طریقہ سے ہوں گی اور اگر بعد میں ہوئی تو آمنے سامنے کی صورت حال بن جائے گی۔ بلاول کی یہ بات سو فیصد درست ہے اس لئے کہ موجودہ عدلیہ کی تقسیم اور ماضی میں افتخار چوہدری کا گن پوائنٹ پر 19ویں ترمیم اور 2015میں عظمت سعید کی طرف سے پارلیمنٹ کی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی مثالیں موجود ہیں جبکہ دوسری جانب 63-Aکی نظر ثانی سماعت رکوانے کے لئے عدالت کے اندر اور باہر کیا کیا جتن نہیں ہوئے بلکہ اب تو ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کے کورٹ نمبر ایک میں چیف جسٹس آف پاکستان کو دھمکی دی گئی کہ باہر 500وکیل کھڑے ہیں ہمارے خلاف فیصلہ کر کے دیکھو۔ یہ دھمکی اس جماعت کے وکیل کی جانب سے دی گئی جس کے بقول وہ آئین اور قانون کے تحفظ کی جنگ لڑ رہی ہے۔ یہاں ایک پرانی کہاوت یاد آ گئی کہ ایک دیہاتی کی دو بیٹیاں تھیں وہ انھیں ملنے گیا تو پہلی بیٹی کے شوہر نے چاولوں کی فصل کاشت کی ہوئی تھی اور اس فصل کو پانی کی بڑی ضرورت ہوتی ہے تو اس بیٹی نے کہا کہ ابا دعا کرنا کہ بارش ہو جائے۔ دوسری بیٹی کے گھر پہنچا تو اس کے شوہر کی کپاس کی فصل تھی تو اس نے کہا کہ ابا دعا کرنا کہ بارش نہ ہو تو اس نے کہا کہ پتر ضرور دعا کروں گا لیکن اک دی فصل تے تباہ ہونی ہی ہے تو یہی حال کچھ ان ترامیم کا ہے کہ فرض کریں کہ ترامیم ہو جاتی ہیں اور آئینی عدالت بن جاتی ہے تو حکومت کے بیڑے پار ہو جاتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ حکومت جب سے قائم ہوئی ہے تو اسے اب تک کسی احتجاجی صورت حال سے پریشانی نہیں ہوئی لیکن بندیال دور کا تجربہ اسے راتوں کو بھی ڈراتا رہتا ہے تو آئینی عدالت کے بعد یہ نہیں کہ وہاں حکومت کے اپنے جج لگ جائیں گے لیکن یہ ضرور ہو گا کہ وہاں ہم خیال ججز نہیں ہوں گے اور اگر ترمیم نہیں ہوتی تو پھر تحریک انصاف کے بیڑے پار لگ جائیں گے لیکن حکومت کے بیڑے بچنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اس لئے کہ پھر کہا یہی جا رہا ہے کہ حکومت کو اعلیٰ عدلیہ کچھ کہے یا نہ کہے لیکن تحریک انصاف کو تو بالکل بھی کچھ نہیں کہے گی اور 9مئی بھی بس تقریروں میں رہ جائے گا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ 2022سے جو سیاست ہو رہی ہے اس کا فائنل راؤنڈ شروع ہو چکا ہے اور تمام فریقین سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں لیکن لگ یہی رہا ہے کہ حکومت اس راؤنڈ کو جیت جائے گی لیکن اس کے بعد تحریک انصاف کی کوشش ہو گی کہ جنگ پارلیمنٹ اور عدالتی ایوانوں سے نکل کر سڑکوں پر آ جائے لیکن گذشتہ ڈھائی سال کے احتجاج کودیکھتے ہوئے اس بات کا امکان کم ہے کہ تحریک انصاف لوگوں کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہو۔
یہاں ایک بات ضرور کہیں گے کہ پاکستان پیپلز پارٹی1977سے47سال ہو گئے ہیں اس عدالتی نظام کو بھگتتے ہوئے۔ جس میں اس نے پھانسیاں جیلیں سب بھگتیں اور مشرف دور اور اس کے بعد ثاقب نثار کے دور سے مسلم لیگ نواز بھی اس عدلیہ کا سامنا آبرو مندانہ انداز میں کر رہی ہے۔ زبانی کلامی شکوے بالکل کئے جاتے رہے لیکن پاکستان کی عدالتی تاریخ میں کبھی یہ نہیں ہوا کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے کورٹ نمبر ایک میں کھڑے ہو کر چیف جسٹس کو کسی نے دھمکی دی ہو۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اسی وقت اس کو گرفتار کر لیا جاتا لیکن چیف جسٹس صاحب کی مہربانی کہ انھوں نے نہ تو توہین عدالت کا کیس بنایا اور نہ ہی کوئی انتقامی کارروائی کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ جنھیں برا کہا جاتا ہے انھیں تو برسوں ہو گئے ہیں ہم خیال ججز کا سامنا کرتے ہوئے لیکن حیرت ہے کہ تحریک انصاف ایک قاضی صاحب کو برداشت نہیں کر سکی اورکبھی دھمکیاں اور کبھی پتلے جلانے کی نوبت آ گئی اور وہ بھی فقط تیرہ ماہ کے قلیل عرصہ میں۔

تبصرے بند ہیں.