ابھی تو کچھ نہیں ہوا

78

ثاقب نثار بلکہ افتخار چوہدری کے دور سے عدالتی معاملات جس طرز پر چل رہے تھے تو وہ لوگ کہ جو ہمیشہ خلق خدا کی آواز یعنی پارلیمنٹ کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں انھیں کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن ابھی ہلکی سی روشنی کی کرن نظر آنا شروع ہوئی ہے کہ آنکھیں لال اور لہجے بگڑنا شروع ہو گئے ہیں حالانکہ ابھی تو کچھ بھی نہیں ہواتو پھر ملک میں یہ ہنگامہ سا کیا ہے ۔ ابھی تو آئینی عدالت بھی قائم نہیں ہوئی اور نہ ہی اس میں کوئی کیس چلنے کے لئے دائر کیا گیا ہے نہ ہی اس میں ابھی کسی جج کو مقرر کیا گیا ہے کہ جس پر اعتراض کی آڑ میں شور مچایا جائے ۔ ابھی تو بیچارے بلاول پورے ملک میں شہر شہر جا کر بار ایسوسی ایشنز سے خطاب کر رہے ہیں کہ آئینی عدالت کی کیا اہمیت ہے اور ابھی تو آئینی عدالت کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے وفود کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقاتیں جاری و ساری ہیں لیکن آئینی عدالت کے حوالے سے مولانا کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ابھی اس کا بھی کوئی پتا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اشارہ مل رہا ہے کہ مولانا ادھر ہیں یا ادھر ہیں اس لئے کہ دوپہر کو اگر حکومتی وفد ملتا ہے تو شام کو تحریک انصاف والے پہنچ جاتے ہیں تو رات گئے پھر حکومت والے پہنچ جاتے ہیں ۔ ابھی تو 9مئی کے مقدمات بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں کہ جہاں روز اول سے تھے بلکہ کئی ایک کی تو ضمانتیں ہو چکی ہیں ۔ ابھی تو 9مئی کے ملزمان خاص طور پر بانی پی ٹی آئی کے ملٹری کورٹس میں کیس چلنے کے بھی نزدیک نزدیک کوئی امکانات نہیں ہیں ۔ ابھی تو بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کو کسی کیس میں سزا کے امکانات بھی نظر نہیں آ رہے اور اگر ماتحت عدلیہ سے سزائیں ہو بھی جائیں تو خدا خیر کرے اعلیٰ عدلیہ ابھی ان سزائوں کو کالعدم قرار دینے کے لئے موجود ہے۔ابھی تو گذشتہ ہفتہ تحریک انصاف کا کم یا زیادہ عوامی اجتماع والالاہور میں جلسہ ہوا ہے اور پھر پنڈی میں احتجاج بھی ہوا ہے تو پھر یہ ہنگامہ آخر کیوں برپا ہے ۔ ابھی تو ایسا کچھ نہیں ہوا لیکن حالات کی کروٹیں بتا رہی ہیں کہ شاید کچھ ہونے والا ہے یا ہو چکا ہے کہ جس کا ادراک ہمیں نہیں ہے تو دیکھتے ہیں کہ ملک میں اچانک ہر طرف ہٹو بچو کا ماحول بنانے کی کوشش کیوں ہو رہی ہے ۔
سب سے پہلے تو سپریم کورٹ نے الیکشن ٹریبونلز پر لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کر لی اور الیکشن ٹریبونلز بنانے کا اختیار ہائیکورٹس کے چیف جسٹس کی مشاورت کے ساتھ چیف الیکشن کمیشن کو دیا ہے ۔ یہ موجودہ سیاسی صورت حال کے تناظر میں انتہائی اہمیت کا حامل فیصلہ ہے اس لئے کہ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اگر یہ اختیار چیف الیکشن کمیشن کے بجائے ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کے پاس ہوتا تو انتخابی عذرداریوں کے فیصلے تحریک انصاف کے حق میں ہونے کے امکانات بڑھ جانے تھے اور یہ بھی ممکن تھا کہ مستقبل قریب میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں خاص طور پر پنجاب اسمبلی میں پارٹی پوزیشن تبدیل ہو جاتی اور اگر ایسا ہوتا تو ظاہر ہے کہ پھر ملک میں پورے کا پورا سیاسی منظر نامہ ہی تبدیل ہو جاتا تو ایک تو یہ فیصلہ بہت سوں کو ناگوار گذرا ہے اور ملک میں ایک دم جو ہنگامی کیفیت طاری کرنے کی کوشش شروع ہوئی ہے اس میں اس فیصلے کا بھی عمل دخل ہے کہ اب جو الیکشن ٹریبونلز بنیں گے ان سے لازمی طور پر وہ فیصلے نہیں آ سکیں گے جن کی امیدوں سے گلشن کے کاروبار میں تیزی کا امکان تھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے چیف جسٹس کو بینچز بنانے والی کمیٹی میں ایک جج اپنی مرضی کا رکھنے کا جو اختیار دیا ہے وہ بھی قیامت سے کچھ کم نہیں ہے کہ اب بندیال صاحب کے دور کی طرح اس طرح کے بینچز نہیں بنیں گے کہ جن کے بنتے ہی پتا چل جاتا تھا کہ فیصلہ کیا آئے گا اور حیرت تو اس بات پر ہو رہی ہے کہ چیف جسٹس کے اس اختیار پر وہ بھی اعتراض کر رہے ہیں کہ جو گذرے کل کو پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی ڈٹ کر مخالفت کر رہے تھے اور اسے سپریم کورٹ پر حملہ قرار دے رہے تھے حتیٰ کہ اس کمیٹی کے قیام کو بھی چیف جسٹس کے اختیارات پر ڈاکہ کے مترادف ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے تھے لیکن اب اسی لابی کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس کو اپنی مرضی کے ایک جج کو کمیٹی میں شامل کرنا تو جمہوریت کی نفی ہے یعنی یہ وہ زندہ مثالیں ہیں کہ جن کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ ان کے کوئی اصول نہیں ہیں ما سوائے اس کے کہ جس سے ان کے مفادات کی تکمیل ہو تو وہی درست باقی سب غلط ہیں ۔
اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ آئین کے آرٹیکل63-Aکی تشریح کے نام پر بندیال کورٹ نے جو نیا آئین لکھ دیا تھا گذشتہ دو سال سے زائد عرصہ ہو چکا تھا اس کی نظر ثانی کی حکومتی اپیل سرد خانہ میں پڑی ہوئی تھی لیکن اب قاضی صاحب اسے بھی سن رہے ہیں ۔ اس کو سننے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش تو بہت کی گئی لیکن قاضی صاحب نے ان تمام رکاوٹوں کی پروا کئے بغیر پانچ رکنی بینچ کے سامنے اس اپیل کو سننے کا فیصلہ کر لیا اور عین ممکن ہے کہ جب تک یہ تحریر قارئین تک پہنچے تو اس کا بھی فیصلہ آ چکا ہو اور اگر یہ فیصلہ بھی آئین اور قانون کے مطابق آیا تو ملک میں ہنگامی صورت حال پیدا کرنے کا اصل سبب یہی متوقع فیصلہ ہے جس کے بعد آئینی ترمیم کے لئے راہ ہموار ہو سکتی ہے اور اگر آئینی ترمیم ہو جاتی ہے چاہے کسی بھی طرح سے ہو تو ملک میں جاری ایک عرصہ سے جو بحرانی کیفیت ہے وہ یک لخت ختم ہونے کے امکانات روشن ہو جائیں گے لہٰذا یہ جلسوں کی جگہ اچانک احتجاج نے بلا وجہ نہیں لی اور نہ ہی ان اہم ترین کیسز کی راہ میں بلا وجہ روڑے اٹکائے جا رہے ہیں ۔
بے سبب کچھ بھی نہیں ہوتا ہے یا یوں کہیے
آگ لگتی ہے کہیں پر تو دھواں ہوتا ہے

تبصرے بند ہیں.