وزیر اطلاعات اور حکومتی پالیسی

170

وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری ایک وضع دار اور نفیس خاتون ہیں اپنی بات کو اچھے پیرائے میں کہنے کا ہنر جانتی ہیں جو ذہن و قلب میں ہوتا ہے کہہ دیتی ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے الفاظ کا چناؤ بہرحال نپے تلے انداز میں ہوتا ہے۔ حکومت کے مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیتی ہیں تاہم اس دوران وضع داری کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتیں۔ آج کے دور میں ٹیکنالوجی کے انقلاب انفارمیشن کے سیلاب نے بہت کچھ تبدیل کر کے رکھ دیا ہے سیاست اور اہل سیاست بھی اس سے مبرا نہیں رہے خاص طور پر گزشتہ ایک دہائی کے دوران ہونے والی تبدیلیوں نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا ہے۔
حکومت اور سیاسی جماعتوں سمیت کسی بھی ادارے کے لیے ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے اس دور میں پراپیگنڈہ کا مقابلہ کرنا یقینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اہل افراد ہی اس مشکل ٹاسک کو پورا کر سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ڈی جی پی آر کی جانب سے ایک ٹیلی فون کال آئی انہوں نے ایک فنکشن میں مدعو کیا جس کا بنیادی مقصد میڈیا کے چنیدہ افراد کی نہ صرف وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری اور انکی میڈیا ٹیم کے ساتھ ملاقات تھا بلکہ انہیں حکومتی پالیسیوں سے آگاہ کرنا بھی تھا۔
یہ جان کر مسرت ہوئی کہ اس بار وزیر اطلاعات کی ٹیم تجربہ کار اور زیرک افسران پر مشتمل ہے جو اپنے فرائض منصبی ادا کرنا بخوبی جانتے ہیں۔ جہاں ایک جانب سنجیدہ اور بردبار نظر آنے والے سیکرٹری اطلاعات نے کھلے دل سے میڈیا اور میڈیا پرسنز کے مسائل اور مشکلات کے حوالے سے آگاہی حاصل کی تو وہاں چہرے پر بھینی سی مسکراہٹ سجائے ڈی جی پی آر بھی حکومت و میڈیا کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کو بہتر کرنے کے حوالے سے پُر عزم نظر آئے۔
رہی بات وزیر اطلاعات پنجاب کی تو انہوں نے کھل کر حکومتی پالیسیوں کے حوالے سے اظہار خیال کیا ان کا کہنا تھا کہ حکومت عوام کے فلاح کے
منصوبوں میں مصروف عمل ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف پر مشتمل انتشاری ٹولہ ملک کی بربادی پر کمر بستہ ہے یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے جس وقت پاکستان اور پاکستان کے عوام مسائل کا شکار ہیں اور حکومت اس حوالے سے معاشی اور سیاسی استحکام لانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہی ایسے میں ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ دس دس گولیاں مارنے اور دوسرے صوبے پر حملہ کرنے کی باتیں کر رہا ہے کھلے عام بغاوت کی باتیں کی جا رہی ہیں اور پاکستان کو توڑنے کے عندیے دئیے جا رہے ہیں۔
اب بات کرتے ہیں اس آگ کی جو تیزی سے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے گنتی کے ایک دو ممالک کے علاوہ باقی ممالک اس آگ میں جھلس چکے۔ ایران ہو یا عراق لبنان ہو یا پھر شام یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آ رہا۔ ایسے میں گریٹر اسرائیل کی باز گشت ایک دفعہ پھر سنائی دے رہی ہے تو اس میں کتنا سچ ہے اور کتنی حقیقت کیا گریٹر اسرائیل کا منصوبہ صرف ایک کہانی ہے یا پھر یہ کہانی اب پورا ہونے کو ہے۔
’ایک دن آئے گا جب ہماری سرحدیں لبنان سے لے کر سعودی عرب کے عظیم صحراؤں سے ہوتی ہوئی بحیرہ روم سے لے کر نہرِ فرات (عراق) تک پھیلی ہوں گی۔‘
رواں برس جنوری میں اسرائیلی مصنف ایوی لپکن کا یہ انٹرویو میڈیا کی خبروں کی زینت بنا جس میں انہوں نے گریٹر اسرائیل کے تصور پر بات کرتے ہوئے کہا تھا ’فرات کے دوسری جانب کرد ہیں جو ہمارے دوست ہیں۔ ہمارے پیچھے بحیرہ روم ہے اور ہمارے آگے کرد۔۔۔ لبنان کو اسرائیل کے تحفظ کی ضرورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم مکہ اور مدینہ اور طورِ سینا پر بھی قبضہ کریں گے اور ان جگہوں کو پاک کریں گے۔‘
اسرائیل کی جانب سے غزہ کے بعد لبنان اور یمن میں بھی جاری کارروائیوں کے بعد سے سوشل میڈیا پر ایک بار پھر سے ’گریٹر اسرائیل‘ کے تصور کی گونج ہے۔ اس کی ایک وجہ غزہ میں زمینی کارروائی کے دوران کچھ سوشل میڈیا پوسٹس میں کیا گیا یہ دعویٰ بھی تھا کہ بعض اسرائیلی فوجیوں نے اپنے یونیفارم پر ’گریٹر اسرائیل‘ کے نقشے کا بیج پہن رکھا ہے جبکہ انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی وزرا کی جانب سے بھی ماضی میں اس تصور کا ذکر کیا جاتا رہا ہے۔ اس پر عرب ممالک کے صارفین کی طرف سے تشویش ظاہر کی گئی تھی کیونکہ ’دا پرومسڈ لینڈ‘ (وہ زمین جس کا وعدہ کیا گیا ہے) کے نقشے میں اردن، فلسطین، لبنان، شام، عراق اور مصر کے کچھ حصے بھی شامل تھے۔
ہمسائیہ ممالک میں اسرائیلی کارروائیوں میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران اس نے ایران، شام اور لبنان میں ٹارگٹڈ حملے بھی کیے ہیں اور اقوامِ متحدہ اور امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کی جنگ بندی کی کوششوں میں ناکامی کے بعد اسرائیلی کارروائیاں ہر گزرتے دن کے ساتھ بے باک ہوتی جا رہی ہیں۔ اسرائیل میں بہت سے یہودی اس خطے کو ’لینڈ آف اسرائیل‘ کے نام سے جانتے ہیں اور یہ اسرائیل کی موجودہ سرحدوں سے کہیں بڑا جغرافیائی علاقہ ہے۔ گریٹر اسرائیل کا تصور کوئی نیا خیال نہیں مگر یہ تصور کہاں سے آیا اور ’دا پرومسڈ لینڈ‘ میں کون کون سے علاقے شامل ہیں، یہ جاننے کے لیے ہمیں کئی سو سال پیچھے جانا پڑے گا۔
صیہونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل کے مطابق ’پرومسڈ لینڈ‘ یا گریٹر اسرائیل کے نقشے میں مصر میں دریائے نیل سے لے کر عراق میں نہرِ فرات تک کے علاقے شامل ہیں یعنی فلسطین، لبنان، اردن، عراق، ایران، شام، مصر، ترکی اور سعودی عرب۔ یہ حقیقت طشت از بام ہو چکی ہے کہ سعودی عرب اور اردن بھی اس آگ کی لپیٹ میں بہت جلد ہوں گے۔ پاکستان اور افواج پاکستان اس منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ان دنوں دہشت گردی کی شدت میں بہت تیزی آئی ہے جبکہ سیاسی طور پر اسے عدم استحکام سے دوچار کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر پاکستان کی افواج کے خلاف نفرت پھیلانے کی سازش بھی انہی مذموم کوششوں کا حصہ ہے۔

تبصرے بند ہیں.