فلسطین کے بعد لبنان میں اسرائیلی جارحیت نے ایک طرف تو سنگین نوعیت کے مسائل کو جنم دیا ہے اور دوسری طرف کئی اہم سوالات بھی ہمارے سامنے کھڑے کر دیے ہیں۔ حالیہ جنگی صورتحال نے یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ جدید ممالک روایتی جنگوں کی دوڑ سے آگے نکل چکے ہیں اور اب جنگوں کو روایتی ہتھیاروں یا لشکروں کی بڑی تعداد اور طاقتور جنگجوؤں کے سہارے نہیں لڑا جا سکتا اور نہ ہی جنگ اب جذبات کی رو میں بہہ کر جیتی جا سکتی ہے۔ جدید ممالک نے آبادی کی کثرت کے طفیل دنیا کو فتح کرنے کا نظریہ بھی کم و بیش ایک صدی پہلے چھوڑ دیا تھا۔ کیپٹلسٹ ممالک نے پہلے جنگوں کو تجارتی منڈیوں میں منتقل کیا۔ زیادہ سے زیادہ سرمائے کی پیداوار اور اس کے ارتکاز سے دنیا کے بہترین مادی وسائل کو اپنے کنٹرول میں کیا اور دوسرے ممالک کے معاشی ڈھانچوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔
یورپ نے بہت پہلے ہی نئے جنگی حربوں کو اپنی صنعتی ترقی کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا۔امریکہ کی دریافت (1492) کے بعد وہاں کے لوگوں سے بائیولوجیکل وارفیئر کے ذریعے زمینیں خالی کروائی گئی تھیں بیسویں صدی کی جنگوں میں ایریل وارفیئر نے زمین کے نقشے بدل کر رکھ دیے تھے بعد ازاں کیمیائی وارفیئر کے مظاہرے کئی ملکوں کے مابین جھڑپوں اور بلواسطہ یا بلا واسطہ جنگوں میں دیکھنے میں آئے۔
کچھ استعماری طاقتوں نے صنعتی ترقی کی بدولت ٹیکنالوجی کو اگلا میدان بنایا اور جنگوں کو اس نئے میدان کے سپرد کر دیا۔ بائیولوجیکل ہتھیاروں کی ایجاد کے ساتھ جنگوں کو جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ترتیب دیا اور لڑا جانے لگا جن میں سائبر اٹیک سے لے کر ڈرونز اور روبوٹس وغیرہ شامل ہیں۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے بھی دفاعی نظام کو مضبوط کیا ہے اور جنگی حملوں کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے۔ نئی جنگی تکنیکوں میں انسانی نفسیات کو بری طرح متاثر کرنے والے حربے بھی سامنے آئے ہیں ان میں نیو جنریشن وارفیئر (غیر روایتی جنگ کا ایک روسی فوجی نظریہ) پروپیگنڈا وارفیئر، اور ایسی بہت سی تکنیکوں نے پاکستان جیسے بہت سے ممالک کو بھی اپنے زیر اثر لے رکھا ہے جو حالیہ جنگوں کا براہ راست حصہ نہیں بنے ہیں۔
پاکستان کی دفاعی صورت حال اور داخلی امن و امان کے لیے جس شخصیت کو سب سے زیادہ اہم تصور کیا جاتا ہے وہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر ہیں۔انھوں نے اس وقت پاک فوج کی کمان سنبھالی جب ملک غیر معمولی سیاسی انتشار کا شکار تھا۔ بد ترین پروپیگنڈے اور سوشل میڈیائی افواہوں کی وجہ سے سچ اور جھوٹ کے مابین فرق کرنا ہر خاص و عام کے لیے مشکل ہو چکا تھا۔ پاکستان کو دیوالیہ قرار دیا جا رہا تھا اور پوری نوجوان نسل میں نفرت، تعصب اور اشتعال انگیزی کا زہر بھر کر ملک سے متنفر کیا جا رہا تھا۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس صورت حال میں مخالفین کی طرف سے وہ تمام مسائلں بھی پاک فوج کے کھاتے میں ڈال دیے گئے جو خود انھی لوگوں کے معاشرتی چال چلن کی پیدوار تھے۔
جنرل عاصم منیر نے جس پیشہ ورانہ مہارت اور قابلیت سے ان نا مساعد حالات کا سامنا کیا وہ ان کے مخالفین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ انھوں نے اپنے ادارے میں کئی طرح کی اصلاحات کیں اور اس حوالے سے بہت سے احتسابی اقدامات بھی دیکھنے میں آئے جن کی ملک کی تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
سرِ دست پاکستان میں داخلی سطح پر انارکی اور انتشار کو جنم دینے والی تمام سرگرمیاں ملک کے معاشی و سیاسی نظام اور اس کے دفاع کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہیں۔ پہلے ہی ملک میں سیاسی انتشار کی وجہ سے پالیسیوں کا تسلسل قائم نہ رہ سکا جس کے نتیجے میں بڑے بڑے منصوبے پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔ ملک میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس ، سپورٹس سائنسز ، انجینئرنگ اور بیسک سائنسز کے سینٹرز آف ایکسیلنس تک مکمل نہ ہو سکے۔ ان میں سے کئی منصوبے نوے فیصد تک مکمل ہونے کے باوجود فعال نہ کیے جا سکے۔ سوچیے 2018 تک تقریباً مکمل ہونے والے یہ پراجیکٹ اگر مکمل طور پر فنکشنل ہوتے تو آج ملک میں روزگار پیدا کرنے کی کتنی صلاحیت موجود ہوتی؟ ہمارے نوجوانوں کو سڑکوں پر نعرہ بازی سے بہتر مشاغل اختیار کرنے کو ملتے اور عوام کے معیار زندگی میں بھی یقینا بہتری آتی۔
موجودہ صورت حال میں ہمیں اپنے سیاسی، علاقائی لسانی، تمام تر اختلافات کو پس پشت ڈال کر اپنے اداروں کو مستحکم کرنا ہو گا اور اپنے سیاسی مسائل کے حل کے لیے بہتر رستوں کا انتخاب کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں سب سے پہلی اور اہم احتیاط یہ ہے کہ ہمارے لوگ کسی ایسے منشور کا حصہ نہ بنیں جو عالمی معاشی غارتگروں اور استعماری طاقتوں کا بنایا ہوا ہو ورنہ اس کے نقصانات ناقابل فراموش ہوں گے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.