اکرم شیخ… تُو پھر پہل کر گیا

87

اور وہ بھی راہیں جدا کر گیا… جس نے نہ بچھڑنے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ اپنا وعدہ بھی توڑ گیا اور وہ بچھڑ گیا… یہ دنیا کیسی ہے کہ کچھ چھوڑ گئے… کچھ چھوٹ گئے… کچھ چھوڑ دیئے… ہم کس قدر بدقسمت ہیں کہ زندہ عزیزوں، زندہ یاروں کو ان کی زندگی میں بہت کم یاد کرتے ہیں، بہت کم ملتے ہیں اور پھر جب کوئی عزیز اور یار دوست چھوڑ کر اس دنیا سے اپنے تمام معاملات ختم کرکے رب کے پاس چلا جاتا ہے تو پھر وہ بہت یاد آتا ہے۔ اس کی باتیں اس کے ساتھ زندگی بھر کی کئی ملاقاتیں، اس کے ساتھ کئے جھگڑے اور اس کے ساتھ نبھائی محبتیں بہت یاد آتی ہیں۔ دل کو پریشان تو آنکھوں کو رولاتی ہیں پھر انسان خود کو کوستا ہے کہ کاش میں اس کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا۔ غیب کا علم تو میرے رب کے پاس ہے بعض اوقات کسی اپنے کی موت بہت بڑا دکھ بن کر روگ بن جاتا ہے۔ عمر بھر کا ایسا پچھتاوا… جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔
سدا نہ باغیں بلبل بولے سدا نہ باغ بہاراں
سدا نہ ماپے حسن جوانی سدا نہ صحبت یاراں
کل اکرم شیخ جو زندگی بھر ہر کام ہر معاملے پر ہر ایک سے ملاقات اور ہمہ تن صبح سے رات گئے پریس کلب کے احاطے میں آنے کی پہل کیا کرتا تھا کل وہ موت کے ساتھ بھی پہل کر گیا۔ ہنس مکھ، ملنسار، یاروں کا یار… وعدے کا دھنی… شاید اس نے موت سے بھی وعدہ کر رکھا تھا جو وہ کل نبھا گیا… کہ موت نے تو آنا ہی تھا مگر اتنی جلدی اس کا تصور نہیں تھا… اکرم شیخ… نہ اس کی مرت پر یقین آ رہا ہے نہ اس خبر پر کہ شیخ اکرم بھی دنیا سے چلا گیا… موت کے بارے میں ہم سب کا ایک تصور ہی نہیں یقین ہے کہ اس نے آنا ہے اور ہم سب کو لکھے اپنے وقت کے تحت چلے جانا ہے۔ موت تو آتی ہی ہمیں لے جانے کے لیے… میں اکرم شیخ کی موت پر پریشان نہیں ہوا… البتہ چونکا ضرور کہ اس نے جتنی زندگی گزاری وہ جس قدر جیا خوب جیا… وہ پنجاب دھرتی کی ایک ایسی آواز تھی جس نے پنجاب دھرتی کے ہر رنگ کو اپنے قلم کے ذریعے اجاگر کیا… ’’پنجاب‘‘ منہ بولی ماں کی ہر تحریر ہر لفظ اور ہر موسم کی اس نے پاسداری کی… وہ پنجاب دھرتی کی زبان کا بہت بڑا چوکیدار تھا اور اس نے ہر محاذ پر اس کا خوب دفاع کیا… اور اس کے مان کو زندہ رکھا۔ اس کی زبان کو زبان دی… وہ پنجاب کی دھوپ اور پنجاب کی چھائوں کا بھی ضامن تھا، وہ پنجاب کی صبح اور شام کا بھی چوکیدار تھا…وہ کیا خوبصورت انسان، خوبصورت لکھاری، بہت ذہین، بہت کم ایسے صحافی پیدا ہوئے جن کو اکرم شیخ کہا جاتا ہے۔
باہر ہیں حد فہم سے رنداں کے مقامات
کیا تجھ کو خبر کون کہاں جھوم رہا ہے
میں نے پہلے کہا کہ دھرتی دل لگانے کی جگہ نہیں، یہ تو عبرت کی جا ہے، تماشا نہیں۔ کہتے ہیں کہ بے قدروں کے ساتھ دوستی کانچ کی چوڑی کی طرح ٹوٹ جاتی ہے اور آج اکرم شیخ کے ساتھ میری دوستی کانچ کے شیشے کی طرح ٹوٹ گئی البتہ مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ موت کے ساتھ بھی پہل کر جائے گا۔ سوچ رہا ہوں کہ اس کو پہل کرتے وقت اپنے یاروں کا خیال تو آیا ہوگا مگر اس کو اپنے جان جگروں کا بھی خیال آیا ہوگا وہ جگر گوشے جو وہ اس کے بیٹے ہی نہیں تھے اس کے غمگسار ہی نہیں ، اس کے جگر گوشے ہی نہیں وہ تو اس کی زندگی کے ہم سفر بھی تھے۔ اس کے یار بھی تھے، دلدار بھی تھے، حسن نواز بھی تھے اور اس کی آواز بھی تھے۔ کیا موت کے ساتھ پہل کرتے وقت کسی کا بھی نہ سوچا… نہ پکارا… دل نہیں مانتا، پکارا تو ہوگا… آواز تو دی ہوگی، سب کو یاد تو کیا ہوگا۔
جانتے ہیں اہل دل اس راز کو
موت بھی اک زندگی کا راز ہے
موت، موت، موت… اس موت نے اب میرے اعصاب بہت مضبوط کر رکھے ہیں۔ ابھی یہ کل کی بات ہے جب میں الطاف حسین فلم ڈائریکٹر کی وفات پر لکھ رہا تھا… وہ بھی میرا یار تھا۔ اس سے پہلے ایک اور یار سردار کمال پر لکھ رہا تھا اور آج شیخ اکرم کے بارے میں لکھ رہا ہوں… اس کے ساتھ بیتے لمحات… اس کے ساتھ بیتی یادیں آپ سے شیئر کر رہا ہوں… لکھتے لکھتے یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ میرا قلم کدھر چل پڑا ہے۔ میں تو یاروں کے جنازوں پر لکھ لکھ کر اندر سے ٹوٹ چکا ہوں… دکھی دل اور برسات کی طرح برستی آنکھوں کے سامنے شیخ اکرم کا چہرہ بار بار آ رہا ہے… نہیں لگتا کہ وہ ہم سب سے بچھڑ گیا ہے… شاید وہ وعدے کا بہت دھنی تھا جو وعدہ کرتا پورا ہوتا… میں تو یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ جب وہ موت کے ساتھ پہل کر رہا تھا یا موت اس کے ساتھ پہل کر رہی تھی تو اس نے کسی سے وعدہ نہیں کیا ہوگا۔ وہ جانتا تھا کہ وعدہ کیا تو پھر نبھانا پڑے گا، کہتے ہیں کہ موت کی طرح، ہر کہانی اور کہانی سے جڑی ہر شے کا اختتام ہوتا ہے لیکن شیخ اکرم کی کہانی کا اختتام بہت جلدی ہو گیا۔ اس کی زندگی کا یہ شرارہ یوں چپکے چپکے گزر جائے گا یہ دل نہیں مانتا کیونکہ وہ تو صدی کی طرف بڑھ رہا تھا… آج دنیا کی نظر میں تو مر گیا کہ وہ عہد کا انسان تھا… وہ زمانے کا کردار تھا، وہ یاروں کا یار اور غمگساروں کا غمگسار تھا…
اور آخری بات…!
میرے بالوں میں کالے رنگ کی جگہ سفیدی نے لے لی ہے۔ 71سالہ زندگی نے مجھے بھی بابا بنا دیا ہے۔ شاید اسی لئے آج بڑی شدت سے سوچ رہا ہوں دنیا چھوڑنے والا نہ ضدی، نہ لڑاکا، نہ زیادہ غصے والا تھا… بس وہ شیخ اکرم تھا۔ دنیا کے بڑے دانشور، بڑے حکمران، بڑے ہیروز، بڑے نامور لوگ خموشی کے ساتھ سفید کفن میں لپیٹ دیئے گئے اور کتنے اپنی باری کے منتظر ہیں۔ یہ آنے جانے کا سلسلہ تا قیامت رہنا ہے۔ آج وہ نہیں تو کل ہم نہیں… ہر انسان کے سفر کا اختتام موت ہے… میرا قلم آگے نہیں… چل رہا… میں اس بارے… اس کے عشق کے بارے، اس کی محبتوں کو شمار نہیں کر سکتا… یہ حقیقت ہے کہ لکھاری بھی ایک انسان ہی ہے ناں، وہ کب تک موت کے منظر نامے لکھتا رہے گا… کب تک… کب تک…
خواہش مرگ کے سوا اجمل
دل میں اپنے بچا ہی کب کچھ ہے
یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ اب پریس کلب کے احاطے میں صبح سے رات گئے تک یاروں سے یاری نبھانے والا اکرم شیخ کبھی نہیں آئے گا اس کے بغیر کچھ عرصہ تک پریس کلب کا ’’ویڑہ‘‘ ویران ویران لگے گا پھر… وہ بھی بھول جائے گا، کبھی یاد نہ آنے کے لئے شاید یہی دنیا کا دستور ہے۔

تبصرے بند ہیں.