پاکستان اور عوام پر رحم کریں

91

حالیؒ کے اس مصرعے ’’پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے‘‘ کی عملی تعبیر ہماری آج کی صحافت اور سیاست ہے۔ صحافیوں کے نام پر چھاتہ برداروں کی فوج ظفر موج صحافت پر مسلط ہے۔ ان کی گفتگو سنیے تو محسوس ہوتا ہے کہ جناب تجزیہ نہیں بلکہ خود پر ہونے والے نزول کو بیان کر رہے ہیں۔ چھاج کے ساتھ ساتھ اب ہر چھلنی نے بھی بولنا شروع کر دیا ہے ’’مجھے کچھ ہو گیا تو ذمہ دار فلاں فلاں ہو گا‘‘۔ سیاست دانوں کو دیکھ لیجئے اپنی پاکیء داماں کی حکایات اور مخالف میں موجود و نا موجود برائیاں بیان کرتے نہیں تھکتے۔ سیاست مسائل کے حل سے نکل الزامات تک آ پہنچی ہے اور صحافت حق اور سچ کے بجائے ذلالت کے پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے۔ مختار مسعود مرحوم نے آوازِ دوست میں لکھا ہے کہ جب خواہش قلبی اور فرائضِ منصبی ایک ہو جائیں تو اسے خوش قسمتی سمجھنا چاہئے۔ مگر ہمارے یہاں فرض نے پیشے اور ہوسِ زر کی شکل اختیار کر لی ہے جس کے نتائج ہم دیکھ رہے ہیں۔
اشفاق احمد مرحوم کی کتاب زاویہ میں ایک باب ہے ’’حضرت صالحؑ کی اونٹنی اور پاکستان‘‘۔ اس میں وہ بتاتے ہیں کہ اونٹ کے ذکر پر اْن کے ذہن میں اس اونٹنی کا خیال بار بار آتا ہے جو اونٹنی حضرت صالحؑ کی تھی، اور جو ایک معجزے کے طور پر وجود میں آئی تھی۔ قومِ ثمود کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت صالحؑ کو بھیجا تھا، اور جو ایک اونچے درجے کے نبی تھے انہیں حکم ہوا کہ جا کر اس بے ہودہ قوم کو راہ راست پر لائیں۔ وہ بڑی بگڑی قوم تھی۔ بیشتر میں خرابی یہ تھی کہ ان کے پاس دولت بہت زیادہ تھی، علاقہ بہت سر سبز تھا۔ اردن کے علاقہ سے لے کر عرب تک، اور مدینے شریف سے لے کر تبوک کے درمیانی علاقے میں۔ لمبا چوڑا علاقہ تھا، اور ثمود کے لوگ اپنے تئیں تکبر کے مارے ہوئے اور اپنے آپ کو بہت برتر سمجھتے ہوئے اونچے پہاڑوں کو تراش کر چھینی ہتھوڑی سے انہیں چھیل چھیل کر ان پہاڑوں کے اندر نہایت خوبصورت محل بناتے تھے۔ یہ ان کا بڑا کمال تھا، آج بھی ان کی باقیات اردن میں جا کر دیکھی جا سکتی ہیں۔
یہ لوگ معاشرے کے معتبر لوگ تھے اور وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ تب اللہ نے ایک پاکیزہ نبی حضرت صالح علیہ السلام کو ان کے پاس بھیجا کہ جا کر ان کو اللہ کا پیغام دیں۔ تو ان لوگوں کو نبیوں کے اوپر جو اعتراض رہا تھا، جتنے بھی نبی ان کے پاس بھیجے گئے ہیں ایک ہی اعتراض رہا ہے کہ آپ کیسے نبی ہو سکتے ہو؟ آپ ہمارے جیسے انسان ہو۔ اور کہتے تھے کہ تو بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، اور پھر تیسری بات کہ تو غریب آدمی ہے، اور غریب آدمی کیسے نبی ہو سکتا ہے؟ نبی تو بہت امیر آدمی کو ہونا چاہیے۔ متکبر کو ہونا چاہیے۔ فرعون نے بھی یہ ہی کہا تھا کہ تم کیسے نبی ہو سکتے ہو، تیرے بازووں میں سونے کے کنگن بھی نہیں اور بھی جتنے پیغمبر تھے ان کے ساتھ بھی یہ ہی تھا۔ نوحؑ کے ساتھ بھی یہ ہی تھا۔ وہ یہ ہی بات بار بار دہراتے کہ اگر تو سر بلند ہوتا اور تیرے بھی اتنے اونچے محل ہوتے، جتنے لوگوں کے پاس ہیں، تم نے بھی ایسی عمارتیں بنائی ہوتیں، اے صالح تو ہم تم کو پیغمبر مان لیتے، اب تو تو ایک عام آدمی ہے۔ اگر ہم طبیعت پر بوجھ ڈال کر آپ کو پیغمبر مان بھی لیں تو اس کے لیے ایک شرط ہے کہ ہمیں کوئی معجزہ دکھا دو، حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا آؤ کہ تم کون سا معجزہ چاہتے ہو؟ مگر معجزہ رونما ہونے کے بعد پھر اگر تم نے خدا اور اس کے پیغمبر کو نا مانا تو پھر تم پر عذاب آ جائے گا۔ ثمود نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تیرا اللہ اس پہاڑ سے ایک اونٹنی پیدا کرے۔ وہ اونٹنی آئے ہمارے ساتھ بستی میں رہے تو پھر ہم مانیں گے تم پیغمبر ہو۔ چناں چہ انہوں نے دعا کی، اور اللہ سے اس معجزے کو طلب کیا کہ اگر یہ لوگ اس طرح ہی سے مان جائیں تو ان کا فائدہ ہے۔ ان چٹیل چکنے پہاڑوں کے درمیان میں سے اللہ کے حکم سے اونٹنی نمودار ہوئی۔ تب حضرت صالحؑ نے فرمایا کہ تمہاری خواہش کے مطابق یہ اونٹنی انہی پہاڑوں میں سے پیدا ہو کر آپ کے درمیان آ گئی ہے۔ اب اللہ نے ایک شرط عائد کی ہے کہ بستی کے ایک کنویں سے یہ پانی پیئے گی اور اس کا ایک دن مقرر ہو گا۔ اس دن وہاں سے کوئی دوسرا آدمی، نہ کوئی مویشی اور نہ کوئی چرند پرند پانی لے سکے گا۔ کچھ دن تو ثمود نے وعدے کی پاسداری کی۔ مگر بعد میں پہلے آٹھ لوگ جو بعد میں نو ہو گئے یہ طے کیا کہ ہم نے یہ شرط خود پر خواہ مخواہ میں عائد کر لی ہے۔ اس اونٹنی کی کیا حیثیت ہے۔ ہم اس کا کسی نہ کسی طرح قلع قمع کر دیتے ہیں۔ پھر ایک رات انہوں نے اس اونٹنی خونچیں کاٹ دیں، جو کہ ٹخنوں کے اوپر کا حصہ ہوتا ہے، تو اونٹنی ظاہر ہے وہاں پر اپاہج ہو کر بیٹھ گئی۔ یہ حضرت صالحؑ کے علم میں آیا تو انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ یہ بہت بْرا ہوا، تم نے نہ صرف معجزے کو جھٹلایا بلکہ اس مہمان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، اب تین دن میں تمہارا قلع قمع ہو جائے گا اور تم نیست و نابود ہو جاؤ گے۔ پھر آنے والی تاریخ میں لوگ انگلیاں اْٹھا اْٹھا کر بتایا کریں گے کہ یہ ثمود کے رہنے کی جگہ تھی اور یہ ان کے محل تھے جو ویران پڑے ہیں اور قیامت تک اسی طرح ویران رہیں گے۔ چناں چہ جیسے فرمایا گیا تھا بالکل ایسے ہی ہوا پہلے دن، جیسا کہ بتاتے ہیں کہ ان کے منہ پیلے ہوئے اگلے دن بے حد سرخ ہو گئے اور پھر کالے۔ پھر ایک ایسی چنگھاڑ، جیسے آج کل بم بنے ہیں۔ چنگھاڑ آئی، وہ سارے کے سارے اوندھے منہ گر گئے اور نیست و نابود ہو گئے۔
اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اشفاق احمد صاحب لکھتے ہیں کہ اسلام آباد ایک تقریب میں جانا ہوا تو پیغام ملا کہ ایک بابا جی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں ان سے ملنے چلا گیا۔ انہوں نے کہا کہ تم بڑی مٹھار مٹھار کی باتیں بناتے ہیں لیکن میں تم کو وارن کرتا ہوں کہ تم لوگ بہت بے خیال ہو گئے ہو۔ تم ایک بہت خوفناک منزل کی طرف رجوع کر رہے ہو۔ یہ پاکستان ملک ایک معجزہ ہے۔ یہ جغرافیائی حقیقت نہیں ہے۔ تم بار بار کہا کرتے ہو ہم نے یہ کیا اور یہ کیا۔ پاکستان کا وجود میں آنا اتنا ہی بڑا معجزہ تھا جتنا بڑا قوم ثمود کے لیے اونٹنی کا پیدا ہونا تھا۔ اگر تم اس پاکستان کو حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی سمجھنا چھوڑ دو گے، تو تم رہو گے نہ تمہاری یادیں۔
پاکستان کی موجودہ صورت حالات کو دیکھتے ہوئے جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی قیادت ناکام ترین نسل کے ہاتھ میں ہے۔

تبصرے بند ہیں.