حسن نصر اللہ کی شہادت : فخر بھی شرمندگی بھی

87

میرے لئے یہ حیران کُن نہیں ہے کہ اسرائیل نے سید حسن نصر اللہ کو بھی شہید کر دیا کیونکہ میرا یقین ہے کہ اسرائیل امریکی صدر سمیت کسی کو بھی قتل یا شہید کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ طاقتور کی یہی زبان ہوتی ہے وہ کبھی کسی قانون یا اخلاقیات کا پابند نہیں ہوتا ۔آپ تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن اللہ نے زمین پر اپنے عظیم نظام ِ ربوبیت کی حاکمیت ہمیشہ عقل کی اعلیٰ ترین قسم سے ہی قائم کی ہے جو ہمیشہ انبیا ء اور اُن کے ورثا کے پاس ہوتی ہے ۔ آج اسرائیل زمین پر جو برباد ی کر رہا ہے اِس میں اُس کا فرعونی زعم حقیقت میں اُس کی انفارمیشن اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی انتہا ہے جبکہ ہماری تاریخ اہلِ عقل و دانش کے قتل اور تذلیل کی تاریخ ہے جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ۔یورپ کے تاریک سے روشن ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہمارے اُن بزرگوں کا کام تھا جنہیں ہم نے ’’مرتد‘‘ یا کافر کہہ کریا تو جلا وطن کیا یا پھر درباروں میں ہی شہید کردیا۔ ابن ِ رشد جیسے عظیم انسان کو سپین کی جامع مسجد کے ستونوں سے باندھ کر کوڑھے مارے گئے اور اُس کے منہ پر تھوکا گیا اور پھر سپین بھی ہمارے ہاتھ سے نکل گیالیکن سپین میں آج بھی ابنِ رشد کا فلسفہ راج کررہا ہے ۔ اخوان الصفا جسے انسانی تاریخ کا پہلا متفقہ انسائیکلوپیڈیا تسلیم کیا جاتا ہے ایک ہزار سے زائد برسوں پہلے مسلمانوں نے لکھا جس کی 52جلدیں تھیں ٗ اور جس کی سمری 17 جلدوں میں کی گئی اور سمری کی سمری آج بھی 3 جلدوں میں دستیاب ہے ۔ آج دنیا میں ہونے والی سائنسی علوم کی ساری ترقی کی بنیاد وہی انسائیکلوپیڈیا یا دوسرے مسلمان فلاسفر یا دانشور سمجھے جاتے ہیں ۔ جنابِ بو علی سینا کی علم الابدان پر لکھی گئی کتاب اٹھارویں صدی کے وسط تک یورپ کے میڈیکل کالجوں میں پڑھائی جاتی رہی ۔ہندوستان پر مسلمانوں نے 712ء سے لے کر 1857 ء تک کسی نہ کسی صورت میں حکومت کی لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ ہم نے یہاں ایک بھی یونیورسٹی ٗ کالج ٗ نظام تعلیم ٗ نصاب یا پھر عقلی علوم کا ایک بھی ادارہ بنانے کی زحمت نہیں کی ۔ یہ اپنی
تاریخ پر بے رحم تنقید نہیں ٗجو لازمی ہونی چاہیے ٗ بلکہ ایک خود احتسابی کا سرسری جائزہ ہے ۔
میرا دھیان اسرائیلی بربریت نے اُس وقت اپنی تاریخ پر مبذول کرایا جب پھٹنے والی کتابیں،، زہر آلود ٹوتھ پیسٹ، بوبی ٹریپس، مفلوج کرنے والی دوائیں،لیٹر بم،پیجر، واکی ٹاکی اورمصنوعی ذہانت والی بندوقوں سے میرے بچوں ٗ عورتوں ٗ بزرگوں اور جوانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں شہید ہونے والے رہنمائوں کی ایک طویل فہرست میرے سامنے پڑی ہے لیکن میں چند تازہ ترین شہادتوں کو ہی موضوع بنانا ضروری سمجھتا ہوں کہ تنگیٔ اوراق اس کی اجازت نہیں دیتے ۔ حزب اللہ کے سربراہ نصراللہ،حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ، حماس کے ملٹری ونگ کے سربراہ محمد دیف،حماس کے نائب سربراہ صالح العروری، حزب اللہ کے سینئر کمانڈر فواد شکر، راکٹ یونٹ کے کمانڈر ابراہیم قبیسی، آپریشن کمانڈر ابراہیم عقیل، نگراں رضوان فورس احمد وہابی، کمانڈر قدس فورس محمد رضازاہدی، کمانڈر عزیز یونٹ محمد نصر، کمانڈر نصر یونٹ طالب عبداللہ کے علاوہ متعدد اور رہنما بھی شامل ہیں۔سر سید نے تو 1857 ء کے بعد رسالہ اسباب ِ بغاوت ہند میں اپنے نو قابض آقائوں کویہ سمجھنانے کیلئے کہ اس جنگِ آزادی ٗ غدر یا بلوے کی وجہ صرف مسلمان ہی نہیں ہندو اوردوسری اقوام بھی ہیں ۔ یہ بات تو سمجھ آتی ہے لیکن آج یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ اگر مسلما ن ایک بدن ہیں تو پھر ہمارے جسم کے دوسرے حصوں کو کیوں نوچ نوچ کر ہم سے الگ کیا جا رہا ہے ۔ اسرائیل فلسطین کی جنگ میں اب تک 50 ہزار سے زائد شہید ٗ 96 ہزار سے زائد زخمی اور 10 ہزار سے زائد لاپتہ ہیں اور مہاجرین کا شمار ممکن نہیں کہ یہ ہجرت اب بہت طویل ہوتی جا رہی ہے ۔آخری خبر آنے تک اسرائیل نے لبنان کے بعد یمن پر بھی حملہ کردیا ہے اور یمن کی شمالی سرحدیں سعودیہ ٗ شمالی مشرقی اومان ٗمغرب میں بحیرہ احمر جبکہ مغرب میں بحیرہ ہند واقع ہے ۔ سو اگلی بات سمجھنا انتہائی آسان ہے ۔ جلد ہی ایران کی باری آ جائے گی کیوں کہ ہمارے خطے میں تھانیداری کی جنگ بھارت اور چین کے درمیان ہے اور’’امریکہ بہادر ‘‘ پوری طاقت کے ساتھ بھارت کے ساتھ کھڑا پاکستان کو اپنے ساتھ کھڑا کرنا چاہتا ہے اور اگر پاکستان امریکہ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو اِس کا دوسرا مطلب بھارت کے ساتھ چین کے خلاف کھڑا ہونا ہے ۔ اگرایسا ہوتا ہے تو ہم اپنے دو قومی نظریے کی عمارت کے ملبے کے نیچے خود ہی آ جائیں گے کسی کو ہمیں مسمار کرنے کی ضرورت نہیں ۔ آپ اسرائیل کے طاقتور ہونے کااندازہ اسی بات سے لگا لیں کہ جس شخص کی رہائی کیلئے اسرائیلی اخبارات ایڑی چوٹی کا ضرور لگا رہے ہیں اُسے ہم دیسی مرغے ٗ دیسی گھی اور دیسی بکرے کھلا رہے ہیں جبکہ اسرائیل ہمارے ’’سید‘‘ بھی ذبح کرتا جا رہا ہے ۔ ہم پہلے ہی فیصلہ کرنے میں بہت دیر کرچکے ہیں اور اسرائیلی ٹڈی دل ہے کہ بڑھتا چلا آ رہا ہے اورجس دن اُس نے ایران کادروازہ کھٹکھٹا دیا ہمیں سمجھ جانا چاہیے کہ اس کے بعد اس خطے میں ہم ہی رہ جائیں گے جن کا ساتھ امریکہ کو ہر صورت اور ہر قیمت پر دینا ہو گا ۔ ابھی وقت ہے ہمیں اپنی 1950 ء کی غلط پالیسی کو درست کرلیناچاہیے اگر ہم خطے میں طاقت کو توازن میں رکھنا چاہتے ہیں اور شاید اب ہمارے پاس دوسرا رستہ بھی نہیں ۔ فلسطین سے شروع ہونے والی اسرائیل کا جنگی سفر اس صدی کی ایک طویل ترین لڑائی ہے جسے اس ماہ ایک سال مکمل ہوجائے گا اوردنیا بھر کے تماشبینوں نے مسلمانوں کے بچوں ٗ عورتوں ٗ بزرگوں اورجوانوں کے قتلِ عام کا تماشا دیکھا ہے لیکن اس میں صرف غیر ہی نہیں ہمارے اپنے بھی شامل ہیں سو انہی تماشبینوں کو بھی سمجھ جانا چاہیے کہ اُن کے ہمسایوں پر حملہ ہو چکا اور وہ یہ نہ سمجھیں کہ اسرائیل کے گریٹر اسرائیل کے نقشے میں وہ نہیں ہیں۔ آج بھی 1905 ء میں منظر ِ عام پر آنے والے ’’ یہودی پروٹوکول ‘‘ کی ایک ایک لائن ہمار ا تمسخر اڑا رہی ہے کیونکہ یہ دنیا اب تک ویسے ہی چل رہی ہے جیسا انہوں نے لکھا تھا ۔ خدا حافظ سید حسن نصر اللہ آپ کی شہادت پر مسلم دنیا کو فخر بھی ہے اور شرمندگی بھی ۔

تبصرے بند ہیں.