سیاسی حالات میں سپہ سالار نے معیشت دوست اقدامات کر کے عملی مثال قائم کی ہے ۔ کراچی میں تاجر برادری سے ملاقات کے د وران انہوں نے معیشت میں بہتری کے لئے حکومت کی ہر ممکن مدد کا وعدہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک سال پہلے آپ سب لوگوں سے مخاطب تھے اور کہا تھا کہ مایوس مت ہوں، مایوسی گناہ ہے۔ پاکستان کی خوشحالی کے بارے میں کبھی امید نہیں چھوڑنی ۔ معاشرے میں مایوسی پیدا کرنے کی ناکام کوششوں کو اجتماعی کاوشوں سے شکست دی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مختلف شعبوں میں غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ بے پناہ وسائل اور صلاحیت کے پیش نظر پاکستان اقوام عالم میں اپنا جائز مقام حاصل کرنا چاہتا ہے۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا کہنا تھا کہ مغربی سرحد پر سمگلنگ پر قابو پانے سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ برادر دوست ممالک بالخصوص چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان کی معاشی بحالی میں کردار قابل ستائش ہے۔ گوگل ،سٹار لنک اور دیگر بین الاقوامی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ کاروباری برادری کے تعاون کے بغیر یہ کامیابیاں ممکن نہ تھیں۔ پاکستان کے روشن مستقبل پر سب کو غیرمتزلزل اعتماد ہوناچاہیے۔ اس موقع پرانہوں نے مزید کہا کہ آرمی چیف نے کراچی کی کاروباری برادری کو یقین دہانی کرائی کہ فوج غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کارروائی کے لیے پرعزم ہے، کراچی کی کاروباری برادری کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہوں گے۔ آرمی چیف نے تجارتی برادری کو ملکی معیشت کی ترقی میں کردار ادا کرنے اور ایس آئی ایف سی کے ساتھ مل کر کام کرنے کی دعوت دی۔ آرمی چیف کے بیان کے بعد سٹاک مارکیٹ میں بھی ہلچل دیکھنے میں آئی اور انڈکس میں اضافے سے سرمایہ کاروں کے چہرے کھل اٹھے ۔ معیشت دان سپہ سالار کی جانب سے تاجروں کو یقین دہانیوں کے بعد مطمئن نظر آتے ہیں ۔ ان کیمطابق کسی بھی ملک کی فوج کاسربراہ اگر آئینی کردار نبھاتے ہوئے معیشت کی بہتری کی بات کرے تو سرمایہ کاروں کا اعتماد یقینا بحال ہوتا ہے اور آگے بھی بہتری کی امیدیں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ اگرہم 23جون کا 24 ستمبر سے موازنہ کریں تو یہ ظاہر ہوتاہے کہ آرمی چیف نے جو کہا کر کے دکھایا ۔ انہوں نے تاجروں کا اعتماد بحال کرنے کے لئے جو کچھ کہا سچ ثابت ہوا ۔ ایسے میں اعداد و شمار حیران کن ہیں ۔ جی ڈی پی کی نمو 0.29فیصد سے 2.38فیصد ہو گئی ۔ اس طرح 2025کے لئے 3.9فیصد کا تخمینہ لگایا گیا ہے ۔ تجارتی خسارہ اس وقت 27.47ارب ڈالر تھا چوبیس ستمبر کو اس کا گراف نیچے آگیا اور یہ 24.09ارب ڈالر رہ گیا ۔ کرنٹ اکائونٹ خسارے کی بات کریں تو یہ 2.55ارب ڈالر تھا جو کم ہو کر 0.68ارب ڈالر ہو گیا جس سے ظاہر ہوتاہے کہ معیشت درست جانب گامزن ہے ۔ اسی طرح سب سے اہم برآمدات کا حجم تھا جو اس وقت 27.7ارب ڈالر تھا، اب یہ 30.6ارب ڈالر کو چھو رہی ہیں ۔ زرعی برآمدات 4.7ارب ڈالر سے 7.1ارب ڈالر ، آئی ٹی برآمدات 2.6ارب ڈالر سے 3.2ارب ڈالر ، چین کو برآمدات 2ارب ڈالر سے 2.7ارب ڈالرہو گئیں ۔ اس عرصے کے دوران ترسیلات زر 27.3ارب ڈالر سے 30.2ارب ڈالر ہو گئیں ۔ روشن ڈیجیٹل اکانٹ کی آمد 1.96ارب ڈالر سے تجاوز کرتے ہوئے 8.58ارب ڈالر ہو گئیں ۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI): 1.63 ارب ڈالر سے 1.9 ارب ڈالر ہو گئیں ۔ پالیسی شرح سود کی بات کریں تو یہ بائیس فیصد سے 17.5فیصد پر آگئی ۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر اس وقت 333.5روپے فی ڈالر تھی جو کم ہو کر 278روپے فی ڈالر پر آگئی۔ سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 4.4 ارب ڈالر سے بڑھ کر 9.47 ارب ڈالرہوئے ۔ اسی طرح پاکستان سٹاک ایکسچینج 47,000 پوائنٹس سے 82,000 پوائنٹس کی سطح پر پہنچی جو کہ ایک ریکارڈ ہے ۔ اس دوران ہر مکتبہ فکر کے افراد ملکی معیشت کی بحالی میں اپنا حصہ ڈالا اور ٹیکس وصولی 7.1کھرب روپے سے بڑھ کر 9.3کھرب روپے ہوگئی ۔ افغانستان کو سمگلنگ کا اثر یعنی اے ٹی ٹی حجم میں کمی دیکھنے میں آئی ۔ یہ 7.9 ارب ڈالر سے کم ہو کر 2.88 ارب ڈالرپر آگئی ۔ مندرجہ ذیل اعدادو شمار معروف صنعتکار کی جانب سے پیش کئے گئے ہیں جس میں واضح کیا گیاہے کہ آرمی چیف کے کراچی کے دو دوروں کے دوران میکرو اکنامک اشاریوں کا موازنہ تسلی بخش ہے ۔ دوسری جانب معاشی تجزیہ کاروں نے بھی نوید سنائی ہے کہ بہتری کا عمل جاری و ساری ہے ۔ آئندہ آنے والے دنوں میں معاشی میدان سے اچھی خبریں دیکھنے اور سننے کو ملیں گی ۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پروگرام بھی منظور ہو چکا ہے جس سے پاکستان کی ادائیگیوں کا توازن بہتر ہوگا سرمایہ کاروں کا اعتماد مزید بحال ہوگا جس سے خاطر خواہ اثر براہ راست ملکی معیشت پر پڑے گا۔ اسی طرح مہنگائی کا نیچے آتا گراف بھی عوام کو ریلیف دے گا ۔ ایسے مثبت حالات میں ملک کسی بھی داخلی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی سیاسی جماعت بھی ملک میں منفی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہوئے حالات خراب کرے تو یہ ملک کے لئے نقصان دہ ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام فریقین ایک پیج کر آکر ملکی معیشت کو درست سمت میں لے جانے کے عمل کی حوصلہ افزائی کریں ۔
تبصرے بند ہیں.