پاکستان کی معیشت گزشتہ کئی سال سے ایک ہنگامہ خیز رولر کوسٹر سواری پر ہے۔ یہ سواری عروج و زوال کے درمیان جھولتی رہتی ہے، جو کہ بذات خود کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان چکروں کی لمبائی کو غیر یقینی طور پر مختصر وقفوں تک کم کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے مسائل زیادہ تیزی سے سامنے آتے ہیں۔ تاہم معیشت اب بہتری کی واضح علامات دکھا رہی ہے۔ آئیے ان بہتریوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔
قرض سے جی ڈی پی کا تناسب مجموعی میکرو اکنامک کارکردگی کا ایک وسیع پیمانے پر قبول شدہ پیمانہ ہے،یہ کسی معیشت کی پیداواری صلاحیت کے حوالے سے مقروض ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔مالی سال 24 میں پاکستان کا قرض سے جی ڈی پی کا تناسب 70 فیصد تک بہتر ہوا ہے جو کہ چھ سال کی کم ترین سطح ہے۔ اگر ہم جائزہ لیں تو امریکہ کا قرض سے جی ڈی پی کا تناسب تقریباً 120فیصد، برطانیہ کا 100فیصد اور بھارت کا 82فیصد ہے۔ تواس تناظر میں 70فیصد بالکل بھی برا نہیں ہے ،اگر ہم غیر دستاویزی معیشت کے حجم کا حساب کریں تو پاکستان کی اصل صورت حال اور بھی قابل تعریف ہے۔ اسی طرح بیرونی قرضوں سے جی ڈی پی کا تناسب مالی سال 23 کے 32 فیصد سے کم ہو کر مالی سال 24 میں 26 فیصد رہ گیا ہے بیرونی قرض سے برآمدی تناسب، جو بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے، مالی سال 2020 میں 314فیصد سے کم ہو کر مالی سال 2024 میں 253فیصد پر آ گیا ہے۔ اس بہتری کے ساتھ مالی سال 25 میں بیرونی قرضوں کی خدمت سے ریزرو کا تناسب کم ہو کر 89 فیصد رہنے کی توقع ہے۔منفی شور و غل کے باوجود یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ ٹیکسٹائل کی برآمدات میں نمایاں بہتری آئی ہے، جبکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کی برآمدات بھی ایک خوش آئند شرح پر بڑھ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ، ترسیلات میں 40فیصد کا اضافہ ملک کے مجموعی خارجی اکاؤنٹ کی بہتری کے لیے کلیدی رہا ہے۔بیرونی شعبے میں استحکام کا احساس ہو رہا ہے۔ مزید یہ کہ تیل کی قیمتوں میں کمی ایک اور فائدہ ہے، کیونکہ توقع ہے کہ یہ کمی اس سال درآمدی بل کو 3 سے 3.5 ارب ڈالر تک کم کرے گی۔امریکی ڈالر اور پاکستانی روپے کی شرح مبادلہ بھی گزشتہ سال کے دوران کافی حد تک مستحکم رہی ہے، اور اس استحکام نے پاکستان کی بیرونی بانڈ مارکیٹ کو بہتر بنانے کی عکاسی کی ہے۔ اپریل 2026 میں میچور ہونے والے پاکستان کے سکوک بانڈ کی پیداوار میں گزشتہ سال تقریباً 11 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، جو ایک قابل ذکر بحالی کا نشان ہے۔مہنگائی کی شرح میں بھی بہتری آئی ہے۔ یہ سب سے زیادہ تکالیف لمحات ہیں جسے معاشرے کے نچلے طبقے نے محسوس کیا ہے۔ کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) مئی 2023 کے بعد سے 38 فیصد سے کافی کم ہوا ہے اور ستمبر 2024 تک اس کے 7.5 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مزید یہ کہ یہ گرتی ہوئی رفتار کم از کم مارچ 2025 تک جاری رہنے کا امکان ہے۔آ زاد توانائی پروڈیوسرز (IPP) کی صورتحال بھیک کچھ حل طلب دکھائی دے رہی ہے جس کیلئے سابق نگراں وفاقی وزیر ڈاکٹر گوہر اعجاز اور پنجاب کے سابق نگراں وزیر ایس ایم تنویر بھرپور جدوجہد کرتے رہے ہیں ۔ایس ایم تنویر نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو میںواضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ملک کو بچانا ہے تو بجلی کی قیمتیں کم کرنا ہونگی، کپیسٹی چارجز 9 روپے بنتے ہیں اور پچھلے سال کی ایوریج فیول قیمت ساڑھے9رو پے ہے،تمام اخراجات ملا کر فی یونٹ بجلی کی قیمت 25روپے بنتی ہے، لہٰذا حکومت بجلی کی اس سے زائد قیمت مقرر نہ کرے۔انکا یہ بھی کہناتھا کہ ایک ماہ کے اندر بجلی کی قیمتیں کم ہوجائیں گی،ٹاسک فورس کام کر رہی ہے، ملک کو بچانا بہت ضروری ہے، امید ہے کہ اکتوبر کے مہینے میں بجلی کے نرخ کم ہوجائیں گے۔بہرحال اچھی توقعات کا اظہار توبزنس کمیونٹی نے کراچی کے دورے میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے گفتگو کے دوران بھی کیا۔آرمی چیف سے بزنس کمیونٹی کے رہنمائوں عقیل کریم ڈھیڈھی،عارف حبیب، ایس ایم تنویر، زبیرطفیل، خالد تواب، زبیرچھایا،یونس بشیر کائیٹ لمٹیڈ کے سی ای او،زاہد سعید، نکاٹی کے صدرفیصل معیز خان اور دیگر تاجر شخصیات کی ملاقات میں ان تاجررہنمائوں کا دعویٰ تھا کہ آرمی چیف نے آئندہ سال شرح سود سنگل ڈیجٹ تک لانے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کی خوشخبری سنائی۔یہ ملاقات تقریباً ساڑھے چار گھنٹے رہی جس میں آرمی چیف نے صنعتکاروں سے کہا کہ اب وہ ملک میں نئی انڈسٹری لگانے کیلئے تیار ہوجائیں۔آرمی چیف سے ملاقات کے بعد بزنس کمیونٹی کے بیشتر رہنما مطمئن دکھائی دیئے۔نکاٹی کے صدر فیصل معیز خان نے کہا کہ آرمی چیف کی گفتگو سے ہمیں ڈھارس ملی ہے اور لگتا ہے کہ ملک کے معاشی حالات اب سدھرنے کی جانب جارہے ہیں،کاروباری حالات بہتر ہونگے اور اگر بجلی کے نرخ کم ہوجائیں اور شرح سود سنگل ڈیجٹ پر آجائے تو پاکستان کی ایکسپورٹ کو بڑھنے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔اس طرح مہنگائی میں بھی مزید کمی آئے گی۔ مجموعی طور پر معاشی صورتحال گزشتہ سال کے مقابلے بہت بہتر دکھائی دیتی ہے۔ ملکی اور غیر ملکی قرضوں کی تنظیم نو کے خدشات کم ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کہ پچھلے سال کم ذخائر کے باوجود، اقتصادی منتظمین نے قابل ستائش کام کیا۔ نہ تو کسی قسم کی راشننگ ہوئی اور نہ ہی لوگوں کو پیٹرول اسٹیشنوں پر ایندھن کی قلت کے خوف سے بھگدڑ مچانا پڑی۔ ادویات یا ضروری سامان کی کبھی کوئی کمی نہیں تھی، اور ملک دباؤ والے حالات میں معمول کے مطابق کام کرتا رہا۔اب اس محنت کے ثمرات عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے، خاص طور پر ان لوگوں تک جو مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ واضح ہے کہ حکومت کم ہوتے ہوئے سود کے اخراجات کی وجہ سے ایک بڑا سرپلس جمع کرے گی۔ لہٰذا، ہمیں ایک صحیح طریقے سے کام کرنے والی مقامی حکومت کی ساخت کی ضرورت ہے تاکہ یہ فنڈز بنیادی سطح پر پہنچ سکیں، جس سے طویل عرصے سے متوقع سڑکوں کی مرمت اور بنیادی ڈھانچے کی بحالی ہو سکے جو پچھلے چند سالوں میں خراب ہو چکے ہیں۔ اس کے بغیر، بہتریاں حقیقی ریلیف میں تبدیل نہیں ہو سکیں گی۔یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہمیں متوسط طبقے کی قابل استعمال آمدنی بڑھانی ہوگی، جو کہ زیادہ تر خرچ کرنے والے ہوتے ہیں۔ یہ حقیقی طلب پیدا کرے گا جو معیشت کو آگے بڑھائے گی۔اسی طرح، انفراسٹرکچر میں معمولی بہتری بھی باصلاحیت افراد کو ملک میں رہنے کی ترغیب دے گی۔ اس وقت باصلاحیت افراد پاکستان چھوڑ رہے ہیں، حالانکہ کینیڈا، برطانیہ، اور یورپ جیسے مقامات پر مواقع خاصے حوصلہ افزا نہیں ہیں، تاہم لوگ اکثر بہتر انفراسٹرکچر اور بیرون ملک بہتر طرز زندگی کی وجہ سے چھوڑنے کے اپنے فیصلے کا جواز پیش کرتے ہیں۔ بہتر انفراسٹرکچر اور یہاں کے روشن امکانات ٹیلنٹ کو پاکستان میں رہنے پر مجبور کریں گے، جو ہماری مستقبل کی ترقی کے لیے اہم ہے۔ حکومت کو اب اہم فیصلے جلد لینا ہونگے ،مثلاً خزانے پر بوجھ بننے والے 80سے زائد اداروں کی نجکاری کا مرحلہ جلد مکمل کرنا ہوگا،راہ میں حائل کانٹوں کو دور کرنے کیلئے پی آئی اے کی نجکاری میں مزید ایک ماہ کا وقت لینا ضروری ہے تو ٹھیک ورنہ فیصلہ جلد کرلیا جائے ،نقصان میں چلنے والے اداروں کی فروخت آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل ہیں،صرف پی آئی اے ،اسٹیل ملز ہی نہیں بلکہ خسارے میں چلنے والے تمام اداروں کی نشاندہی ہوئی ہے جنہیں نجکاری کے عمل سے گزرنا ہے اور ملکی خزانے کو بچانے کیلئے ان کی نجکاری ضروری ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.