میں اْس لعنت پر تو بات نہیں کروں گا جو قاضی فائر عیسی پر اسلام آباد کی ایک بیکری ملازم نے بھیجی، میں بس اتنا عرض کروں گا قوت برداشت ہمارے معاشرے اور سسٹم سے مکمل طور پر خارج ہو چکی ہے، اس کی پروا نہ کوئی بڑا عہدے دار کرتا ہے نہ عام آدمی کرتا ہے، اس عمل سے پھیلنے والے تعفن کی ہمیں کوئی پروا ہی نہیں ہے، اس عالم میں بلاول زرداری کا اْنگلی اور بازو والی بات کرنا بھی درست ہے اب ہمارے زیادہ تر سیاستدان ‘‘برائلر’’ ہیں، اقتدار اور کردار کے وہ انتہائی کمزور ہیں، لہٰذا آئین قانون اور جمہوریت کے خلاف تمام تر جارحانہ اقدامات پر وہ یا تو خاموش رہتے ہیں یا اپنے آقاؤں سے پوچھ لیتے ہیں اس کے خلاف ہم نے ایسا کیا کہنا ہے جس سے ہمارے ’’جمہوریت پسند‘‘ ہونے کا تھوڑا بہت تاثر قائم رہ سکے ؟ میں سوچ رہا تھا ایسی بات ذوالفقار علی بھٹو کا نواسا یا بینظیر بھٹو کا بیٹا نہیں کر سکتا البتہ اْس آصف زرداری کا بیٹا کر سکتا ہے جو اقتدار کے لئے اب کچھ بھی کر سکتا ہے، ہمارے کچھ اداروں اور اْن میں بیٹھے بڑے بڑے لوگوں میں قوت برداشت مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے، اس عالم میں وہ اْس بڑے پن کا مظاہرہ نہیں کرتے جس کی اْن کے عہدوں کے مطابق کبھی اْن سے توقع کی جاتی تھی، عدم برداشت کا یہ کلچر پچھلے چار پانچ برسوں میں اتنا بڑھا اب اس سے چْھٹکارا ناممکن دکھائی دیتا ہے، رویوں کی دہشت گردی نے پوری سوسائٹی کو ہلا کے رکھ دیا ہے، ہمارے وہ اخلاقی رویے جو ایک زمانے میں ہماری شناخت ہوتے تھے اب چراغ لے کر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے، بیرون مْلک میں اس واقعے بلکہ سانحے کے بارے میں جان کر کتنے دن میں بے سکون رہا لاہور میں ایک پرائیویٹ ہسپتال کے مالک کے بیٹے نے اپنی کسی خواہش کے پورا نہ ہونے پر باپ کو مروا دیا، اْسی روز یہ خبر بھی سننے کو ملی کراچی میں ایک بدبخت بیٹے نے بیوی سے چڑ کے اپنی سگی بوڑھی ماں کا بازو توڑ دیا، اْس سے اگلے روز مجھے پنجاب کے ایک ضلع کے دوست ڈی پی او نے ایک ایف آئی آر بھجوائی جس کے مطابق ایک ستر سالہ بدقماش بوڑھے نے اپنی سگی نواسی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا تھا، اس طرح کے کئی المیوں کا روزانہ پاکستان میں ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے، گھر گھر میں فساد برپا ہے، بے حیائی ہمارے رویوں میں اس قدر سرایت کر چکی ہے خونی رشتوں کی قدر بھی ہمیں نہیں رہی، ایک پنجابی شعر دیکھئے
خون دی عظمت توں انکاری ہو گئے نے
میرے دور دے لوک بیوپاری ہوگئے نے
ہمارا دین دھرم اب صرف جائز ناجائز دولت اکٹھی کرنا ہے، یا ذاتی مفادات کا تحفظ ہے، اپنے اصلی دین (اسلام) کو بھی اسی سے ہم نے جوڑ لیا ہے، ہماری نمازیں ہمارے حج ہمارے روزے ہماری زکوٰتیں اور ایسے دیگر اعمال اب صرف دکھاوے کے ہیں اور کسی نہ کسی دنیاوی مفاد سے جْڑے ہیں، اگلے روز ایک اے ایس آئی نے مجھے بتایا’’میں روزانہ اپنے ایس ایچ او صاحب کے لئے جو’’ڈیلی‘‘ اکٹھی کرتا ہوں وہ رات کو جب ایس ایچ او صاحب عشاء کی نماز پڑھتے ہیں اْن کی جائے نماز کے نیچے رکھ دیتا ہوں‘‘، رشوت کے بازار اب’’منڈیوں‘‘ بلکہ’’عالمی منڈیوں‘‘ میں تبدیل ہو چکے ہیں، جائز ناجائز کام پاکستان میں کئے جاتے ہیں اور اْن کی رشوت بیرون ملک وصول کی جاتی ہے، پہلے’’منتھلی‘‘ ہوتی تھی اب’’ڈیلی‘‘ ہوتی ہے، سب سے بڑی لعنت جھوٹ ہے، اس وقت حالت یہ ہے ، جھوٹ کو بْرائی سمجھنا ہم نے چھوڑ دیا،ہم اب اسے اپنی’’معاشرتی ضرورت‘‘ سمجھتے ہیں، ہمارا کوئی عمل جھوٹ سے خالی نہیں ہوتا، ایک لعنت منافقت بھی ہے، یہ بھی اب ہماری’’قومی شناخت‘‘ ہے، کرپشن صرف روپے پیسے کی نہیں ہوتی، اصل کرپشن رویوں کی ہوتی ہے، اگلے روز ایک افسر مجھ سے ملنے آیا کہنے لگا ’’میں نے رشوت لینی چھوڑ دی ہے البتہ کوئی اپنی خوشی سے دے میں اْس کا دل نہیں توڑتا‘‘، پہلے صرف سفارش سے بھی کام ہو جاتے تھے اب سفارش پٹ جاتی ہے اگر اْس کے ساتھ متعلقہ افسر کو خرچا نہ لگایا جائے، بلکہ اب سفارش کرنے والا شخص جس افسر سے سفارش کر رہا ہوتا ہے اْس سے خودہی یہ کہہ رہا ہوتا ہے ’’ان کا کام کر دینا یہ آپ کی’’خدمت‘‘ بھی کریں گے‘‘، کیونکہ اْسے پتہ ہوتا ہے خالی اْس کی سفارش سے کام نہیں ہونا، پورا معاشرہ کرپٹ ہے ورنہ پاکستان کا سارا قرضہ چند بیوروکریٹس کی اندرون و بیرون مْلک ناجائز کمائی سے بننے والی جائیدادوں کا دس فی صد حصہ بیچ کر اْتارا جا سکتا ہے، میرے پاس اس حوالے سے ہوش رْبا تفصیلات ہیں جو میں مستقل طور پر بیرون ملک شفٹ ہونے کے بعد شیئر کروں گا کہ کس کس عہدے پر بیٹھے کس کس افسر نے پاکستان کو کتنا چونا لگایا ؟ اب اگر میں نے شیئر کیں یہ ’’بھیڑیے‘‘ میری بوٹیاں نوچ لیں گے، عمران خان بڑے دعوے کرتا تھا’’ہم کرپشن ختم کر دیں گے‘‘، میں نے اْس سے کہا تھا’’آپ ایڑی چوٹی و دیگر اعضاء کا زور لگا کر بھی یہ نہیں کر سکیں گے بلکہ اس کا حصہ بن جائیں گے‘‘، میں نے یہ بھی عرض کیا تھا ’’آپ کو کرپٹ افسروں کا سراغ لگانے میں ذرا مشکل پیش نہیں آئے گی بس آپ اپنی قابل اعتماد ایجنسیوں یا ذرائع سے یہ معلوم کروا لیں بڑے بڑے سرکاری افسران نے جب ملازمت شروع کی تب اْن کے اثاثے کتنے تھے، اب کتنے ہیں ؟‘‘، اْنہوں نے فرمایا’’یہ بڑی زبردست تجویز ہے‘‘، پھر اْنہیں بْزدار جیسا مہاں کرپٹ مل گیا اور اْنہوں نے اْس کی تجاویز پر عمل کر کر کے اپنے سے جْڑے اس تاثر کو بہت کمزور کر لیا کہ وہ ایک انتہائی ایماندار انسان ہیں، میں دنیا کی ترقی دیکھ کر اتنا خوش نہیں ہوتا جتنا یہ سوچ سوچ کے کْڑھتا ہوں کب تک تنزلیوں کی دلدل میں ہم دھنستے چلے جائیں گے، ہمارے کرپٹ ادارے جس طرح ایک دوسرے کے دست و گریباں ہیں ہماری رہی سہی عزت بھی دْنیا میں خاک میں مل گئی ہے، پہلے ہمارے بارے میں یہ سمجھا جاتا تھا ’’ہمیں اپنے دْشمن مْلکوں سے لڑنا آتا ہے، اب ہماری ’’شناخت‘‘ یہ ہے ہمیں آپس میں لڑنا آتا ہے، ہمیں کسی اور نے کیا ختم کرنا ہے یہ کام توہم نے آپس میں لڑ لڑ کے خود ہی کر لینا ہے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.