خواتین کیخلاف بڑھتے جرائم اور حکومتی بے حسی

99

ملک میں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم اور تشدد کے واقعات نے ہمارے معاشرے کی تعلیم و تربیت اور اقدار پر کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ سینٹ انسانی حقوق کی کمیٹی میں چند ہفتے قبل ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں غیرت کے نام پر قتل، جنسی زیادتی اور ریپ کے اعداد و شمار نے ہلا کر رکھ دیا۔ ایڈیشنل آئی جی پنجاب (انویسٹی گیشن برانچ) کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 2021 سے جولائی 2024 کے دوران جنسی زیادتی کے کل 10 ہزار 342 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس کے علاہ قتل کے 10ہزار 124 کیسز جبکہ ریپ کے 16 ہزار 317 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ ریپ کیسز کی یہ خوفناک تعداد کسی جنگلی معاشرے کا منظر پیش کر رہی ہے جہاں درندے شکار پر جھپٹنے کیلئے طاق لگائے بیٹھے ہیں۔ اس رپورٹ پر نظر دوڑائیں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ خواتین، بچے اور بچیاں اس گھٹن زدہ معاشرے میں کس طرح سانس لے رہی ہیں۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً چار سال میں پنجاب میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے 217 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ گھریلو تشدد کے واقعات میں بھی ہر سال تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ گذشہ چار سال میں 13 ہزار سے زائد کیسز گھریلو تشدد کے واقعات کے رپورٹ ہوئے ہیں۔ افسوس کہ عورت کی زندگی چار دیواری میں بھی محفوظ نہیں۔ یہاں پر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ابھی صرف ان واقعات کی بات ہو رہی ہے جو مصدقہ ہیں اور رپورٹ ہوئے ہیں۔ ہمارے جیسے معاشرے میں بہت کم لوگ ہیں جو یہ ہمت کرتے ہیں کہ زیادتی اور تشدد کے معاملات کو پبلک ڈومین میں لایا جائے۔ زیادہ تر کیسز تو عزت و غیرت کے نام پر رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔ اسی طرح سے خیبر پختونخوا میں قتل، جنسی زیادتی، ریپ، گھریلو تشدد اور تیزاب پھینکنے کے کل 15 ہزار 79 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار خوفناک حد تک پریشان کن ہیں۔ درندگی اس حد تک بڑھ گئی ہے اب بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔ آئے روز بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ تاہم 2018 میں قصور میں پیش آنے والا ہولناک واقعہ جس میں آٹھ سالہ بچی زینب کو اغوا کر کے پہلے ریپ کیا گیا اور پھر قتل کر دیا گیا۔ اس واقعے نے حکومت کو بھی جنجھوڑ کے رکھ دیا جس کے بعد سخت قانون سازی پر زور دیا گیا اور 2019 میں وازت انسانی حقوق نے زینب الرٹ بل پیش کیا جس کی بعد ازاں پارلیمنٹ نے منظوری دی۔ اگرچہ قانون سازی تو ہو جاتی ہے تاہم اصل مسئلہ اس پر عملدرآمد ہے۔ یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوتاہیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر قوانین پر سختی سے عملدرآمد ہو تو ایسی صورتحال سامنے نہ بنے۔ ہمارے معاشرے کا سٹرکچر ایسا ہے کہ ریپ کے زیادہ تر واقعات رپورٹ نہیں کیے جاتے۔ معاشرہ ایسی مظلوم خواتین کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے ان کے کردار پر انگلیاں اٹھانے میں لگ جاتا ہے۔ لوگوں کے طعنے اور جلی کٹی باتیں متاثرہ عورت اور اس کے خاندان کا جینا محال کر دیتی ہیں۔ ریپ کا داغ ساری ذندگی ان کے دامن سے الگ نہیں ہو پاتا۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی جنسی زیادتی کے واقعات کی تعداد بھی زیادہ ہے جہاں روانہ اوسطا ریپ کے 92 کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ ریپ کیسز میں دہلی سہرفہرست ہے۔ گذشتہ دنوں بھارت کے شہر کولکتہ میں ایک لیڈی ڈاکٹر کے ریپ کے بعد قتل کے واقعے پر پورا ہندوستان سراپا احتجاج ہے۔ اس طرح کے بڑھتے ہوئے واقعات دنیا بھر میں خواتین کے تحفظ کیلئے کی جانے والی کوششوں پر سوالیہ نشان ہیں۔ برطانیہ کے دارالخلافہ لندن میں ہر گھنٹے میں ایک جنسی زیادتی کا کیس رپورٹ ہو رہا ہے جو کہ خطرناک ٹرینڈ ہے۔ دنیا بھر میں جنسی جرائم خطرناک صورتحال اختیار کر گئے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں پہلے ہی عورت کو گھر سے باہر نکلنے میں دشواری کا سامنا ہے جبکہ اس طرح کے واقعات کے بعد ماں باپ بھی خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ دفاتر میں بھی خواتین کو جنسی ہراسگی جیسے واقعات سے نمٹنا پڑتا
ہے یوں عورت مسلسل ذہنی تنائو کا شکار ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں عورت ہی عورت کی دشمن ہے۔ اکثر اوقات سسرال میں عورت کو بیٹی یا بہو تو دور انسان کا درجہ بھی نہیں دیا جاتا۔ بچے کے اولین استاد اس کے والدین ہوتے ہیں۔ بچہ اپنے والدین کے باہمی تعلقات اور رویوں کو غیر محسوس طریقے سے اپنے لاشعور کا حصہ بنا لیتا ہے اور جوانی کی عمر میں وہ سب سامنے آتا ہے۔ ہم دوش اس مرد یا عورت کو دیتے ہیں جبکہ والدین بھی برابر کے قصور وار ہیں ۔ انہیں یہ سکھایا ہی نہیں جاتا کہ اس نے بیوی/ شوہر کے ساتھ عزت و حسن سلوک سے پیش آنا ہے۔ پتہ نہیں ہمارے ڈی این اے میں پرابلم ہے۔ ہم کیوں ترقی یافتہ ممالک کی خوبیاں نہیں اپنا سکتے اور لوگوں کی زندگیوں میں بیجا دخل اندازی سے باز نہیں آتے۔ حالات ایسے ہیں کہ ذاتی دشمنیاں بھی عورت سے بدلہ لینے کے بعد سیٹل ہوتی ہیں۔ چاہیے جائیداد اور زمین کا تنازع ہو یا پھر پسند کی شادی کا معاملہ۔ غیرت کے نام پر قتل ہمارے اندر زہر کی طرح سرایت کر چکا ہے۔ جب ہمارا دین اسلام پسند کی شادی کی اجازت دیتا ہے تو پھر ماں باپ خود کیوں نہیں بچوں کی پسند کا خیال رکھتے ہوئے ان معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرتے۔ اگر وہ ایسا کر لیں تو لڑکے اور لڑکی کو بھاگ کر شادی کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ خیبر پختونخوا میں غیرت کے نام پر قتل کے سیکڑوں واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے 2023 میں 550 افراد غیرت کے نام پر قتل ہوئے۔ غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں میں بھائی، شوہر یا سابقہ شوہر اور والدین شامل ہوتے ہیں۔ یہ سوچ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کیسے اپنی لخت جگر کو بے دردی سے بھائی یا باپ موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ یہ وہ جہالت ہے جو پاکستانی معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ ایک شوہر اپنی بیوی کو چھوڑ کر بیرون ملک چلا جاتا ہے اور پھر تین سال یہاں تک کہ پانچ پانچ سال تک مڑ کر نہیں دیکھتا کہ وہ عورت ذہنی اور جذباتی طور پر کس صورتحال سے گزر رہی ہے۔ کیا ایسے مردوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ بیوی پر کوئی بھی الزام لگا کر غیرت کے نام پر قتل کر دے یا کرا دے؟ معاشرہ مسلسل پستی کی جانب رواں دواں ہے اور ارباب اختیار چین کی نیند سوئے ہوئے ہیں۔ کسی کو فکر نہیں کہ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو سب مٹ جائیں گے۔

تبصرے بند ہیں.