حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ اسرائیل حملے کے نتیجے میں جام شہادت نوش کر گئے۔ اِنا للہ وَ اِنا اِلیہ رَاجعون۔ چند ماہ کے دوران وہ دوسری اہم شخصیت ہیں جنہیں نشانہ بنایا گیا ہے اس سے قبل جناب اسماعیل ہنیہ اور ابراہیم رئیسی کو شہید کیا گیا۔ مسلم دنیا بے بسی سے شہادتوں کو فقط شمار کر رہی ہے۔ دنیا گفتار کے غازیوں کے کردار پر حیرت و ندامت میں ڈوبی اور انگشت بدنداں ہے۔ اقوام متحدہ کے چند روز قبل ختم ہونے والے اجلاس میں ستر کے قریب مسلمان ملک موجود تھے مگر بہت کم ایسے تھے جنہوں نے دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے فلسطین میں اسرائیل کی طرف سے نسل کشی کو فوراً بند کرنے اور فلسطینیوں کو ان کا حق دینے کی بات کی بیشتر ممالک کے مندوبین مصلحتوں کا شکار نظر آئے۔ وہ رسمی طور پر اجلاس میں شریک ہوئے اور رسمی سی باتیں کر کے رخصت ہوئے۔ اقوام متحدہ کے اجلاس سے وزیراعظم پاکستان نے خطاب کرتے ہوئے فلسطین کشمیر اور لبنان کا مقدمہ پیش کیا جس کے بعد اسرائیل وزیراعظم اپنا موقف بیان کرنے آئے تو پاکستانی وفد نے ان کا بائیکاٹ کیا۔ نیتن یاہو نے ڈھٹائی سے اپنا پرانا راگ الاپنا شروع کیا جسے امریکہ اور یورپ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد حزب اللہ کے سربراہ جناب حسن نصر اللہ پر حملے کا حکم دیا گیا۔ ہزاروں ٹن وزنی بنکر شکن بموں سے اس عمارت کو نشانہ بنایا گیا جہاں شہید لیڈر اپنی بیٹی اور دیگر ساتھیوں سمیت موجود تھے۔ اس حملے میں ان کے ساتھی بھی شہید ہوئے۔ اس حملے میں حزب اللہ کے بیروت ہیڈکوارٹر کی عمارت زمین بوس ہو گئی۔ تمام شہادتیں ملبے تلے دبنے سے ہوئیں، حملے کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن اور امریکی انتخابات میں صدارت کی امیدوار بھارت نژاد کملا ہیرس نے اس اقدام کو انصاف پر مبنی قرار دیا جس کی مہذب دنیا میں شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ بیروت میں اس حملے سے قبل وہاں ہر قسم کا مواصلاتی نظام جام کر دیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے لفظی مذمت مظلوم فلسطینیوں کے زخموں کا مرہم نہیں بن سکی نہ ہی ان کا حق انہیں دلوا سکی ہے۔ نیتن یاہو اور ان کا خون آشام ٹولہ اس قسم کی کارروائیوں پر نادم نہیں بلکہ ڈھٹائی سے اعلان کر رہا ہے کہ بات یہاں ختم نہیں ہو گی بہت آگے تک جائے گی۔ جناب حسن نصراللہ کی شہادت پر عراق، یمن، شام اور ایران نے پانچ روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ ترکی میں بھی ایسے ہی جذبات نظر آتے ہیں۔ عالم اسلام میں نصف سے زائد ممالک ایسے ہیں جہاں کوئی دکھ کوئی پریشانی کوئی ندامت نظر نہیں آتی یہاں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تیاریاں ہیں۔ یہ ممالک فلسطین میں پچاس ہزار مردوں عورتوں اور بچوں کے بہیمانہ قتل سے لاتعلق نظر آتے ہیں، ان کے نزدیک اس واقعے کی کوئی اہمیت نہیں۔ بیروت میں حزب اللہ کی ہیڈکوارٹر بلڈنگ پر پچاسی بنکر بسٹر بم گرائے گئے جن میں سے ہر بم میں ایک ٹن دھماکہ خیز مواد موجود تھا، اس حملے سے کتنی تباہی ہوئی ہے کوئی اس کا باآسانی اندازہ نہیں کر سکتا۔ غیر مسلم دنیا میں روس اور چین نے ان حملوں کی پرزور مذمت کرتے ہوئے فوری طور پر فلسطین میں جنگ بند کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور دنیا کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو جنگ کا دائرہ وسیع ہو سکتا ہے۔
امریکہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ اس کے گماشتوں کی شدید خواہش ہے کہ اس جنگ کا دائرہ وسیع ہو۔ وہ مختلف حیلے بہانوں سے ایران کو اس جنگ میں گھسیٹنا چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ افغانستان میں موجود بعض عناصر کو ایران کے خلاف استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ سازش یہ ہے کہ ایران کو مختلف سمتوں میں الجھا دیا جائے پھر اس کے مزید کمزور ہونے کے بعد اس پر حملہ کر دیا جائے۔ اس صیہونی سازش کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اس کے گماشتے سرگرم عمل ہیں۔ یہ جنگ کسی بھی طرح اگر پاکستان کی سرحدوں کے قریب آپہنچتی ہے تو پاکستان پر اس کے یقینا اثرات مرتب ہوں گے۔ ہم اپنے آپ کو ان سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور لاتعلقی کے باوجود اگر ہم پر کسی کی مدد کرنے کا الزام لگا کر کوئی شب خون مارنا چاہے تو ہم کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ یہ وقت کا اہم ترین سوال ہے لیکن اس کا یہ جواب تسلی بخش نہیں کہ ہم نیوکلیئر پاور ہیں کوئی ہم سے چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتا، جن کی آنکھوں میں ہم کھٹکتے ہیں، ان کے اشارے پر پاکستان سے چھیڑ چھاڑ ایک سے زائد مرتبہ کی گئی۔ ایک واقعے میںجہاز کے ساتھ دو پائلٹ گرانے اور پکڑنے کی پریس کانفرنس بھی کی گئی پھر جادو کے زور پر ایک پائلٹ ساری کہانی سے غائب ہو گیا جبکہ ابھی نندن نامی پائلٹ کو عجلت میں گرم گرم کافی پلا کر اس کی خاطر مدارت کر کے رخصت کر دیا گیا جس کے بعد سے بھارتی میڈیا میں اس کے دانشور مسلم ایٹم بم کا مذاق اڑاتے نظر آئے۔
اسرائیل کی طرف سے غزہ کو تاراج کرنے کے بعد اس کا اگلا ہدف بیروت ہے۔ جہاں سیکڑوں افراد اسرائیل بمباری کے نتیجے میں جاں بحق ہو چکے ہیں، اس کے تازہ ترین حملے میں تینتیس افراد مارے گئے۔ لبنان میں دس لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ فلسطین مجاہدین کو اسرائیل کے خلاف انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں لڑتے ہوئے قریباً ایک برس ہو چکا۔ سوال اٹھایا جاتا ہے فلسطینیوں نے پہل کیوں کی تو ان کا جواب ہے۔ اسرائیل فلسطین پر یلغار کا پروگرام بنا چکا تھا یہ حملہ آئندہ اڑتالیس گھنٹوں میں متوقع تھا، ان کے حملے کی شدت سے بچنے کا واحد طریقہ یہی تھا کہ اسے بے خبری میں جا لیا جائے۔ فلسطینی مرد بوڑھے بچے اور خواتین جس طرح سینہ سپر رہے وہ تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ وہ اس سوچ کے ساتھ آگے بڑھتے رہے کہ ان کے لہو کے چھینٹے گراں خواب امت مسلمہ کے چہرے پر پڑیںگے تو وہ بیدار ہو جائے گی اور ان کی مدد کو پہنچے گی لیکن مشاہدے میں یہی آیا کہ نیند بہت گہری ہے اور آنکھ اس وقت کھلے گی جب دروازے پر موت کی دستک ہو گی۔ اسرائیل امریکہ و یورپ اپنی منصوبہ بندی کے مطابق ایک ایک کر کے مسلمان ملکوں کو نشانہ بناتے رہیں گے اور مسلمان ملک یہ سمجھتا رہے گا، اس کی باری نہیں آئے گی۔ اسرائیل انہیں بھی نہیں چھوڑے گا جو اسے تسلیم کر کے اس کے دوست بن جائیں گے۔ مسلم امہ کو اپنی خام خیالی سے باہر آنا چاہئے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.