15 دن میں آر یا پار، استعفے، آخری آپشن

63
گھر کے اندر کی لڑائی خطرناک شکل اختیار کر گئی۔ ’’بات ایوانوں سے چلی اور گلی گلی گئی‘‘ آنے والے جانے والوں کو برداشت کرنے کو تیار نہیں، آنے جانے والے آتے جاتے نظر نہیںآتے، حکومت پر سکون واقفان حال کہتے ہیں دس سال کی گارنٹی مل گئی، پارلیمنٹ 7 اکتوبر تک وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی ترمیم منظور کرانے کے لیے پر عزم، باقی آئینی ترامیم بھی منظور ہوجائیں گی۔ عدالتی انتشار، انا جیتے گی یا آئین، سو فیصد سچی اور پکی خبر وہ ہونے جا رہا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا، بلاول بھٹو نے وفاقی آئینی عدالت کو ضرورت بلکہ مجبوری قرار دے دیا۔ انصاف کے اداروں میں واضح تقسیم کے بعد تو واقعی متوازی عدالت مجبوری بن گئی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عام لوگوں کی پٹیشنز اور مقدمات سنیں گے جبکہ ’’چیف جسٹس آف پاکستان‘‘ آئینی اور سیاسی درخواستیں نمٹائیں گے۔ عدالت کا قیام انوکھی بات نہیں، دنیا کے 85 ممالک میں آئینی عدالتیں قائم ہیں۔ آسٹریلیا میں تو 105 سال سے کام کر رہی ہیں۔ بڑی رکاوٹ دو تہائی اکثریت، مولانا فضل الرحمان کی اہمیت اپنی جگہ، مخصوص نشستوں کی نظر ثانی درخواستوں کا آنے والے دنوں میں فیصلہ ہوگیا تو دو تہائی اکثریت 224 سے بڑھ کر 232 ہوجائے گی۔ منظر نامہ بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ مخصوص نشستیں بن مانگے پی ٹی آئی کو دینے والے بہت آگے نکل گئے۔ ٹائمنگ اہم ہے 70 صفحات کا تفصیلی فیصلہ، الیکشن کمیشن کو حکم نامہ، پریکٹس پروسیجر ایکٹ میں آرڈی ننس کے ذریعے ایک جج کی تبدیلی پر غم و غصہ کا اظہار، اجلاس کا بائیکاٹ، خطوط کا تبادلہ، تلخ ترش ریمارکس، ڈپٹی رجسٹرار نے سب سے پہلے حکم نامہ پر اعتراضات جڑے، چیف جسٹس نے رجسٹرار پر 9 سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ رجسٹرار نے واضح طور پر بتا دیا کہ حکم نامہ سے پہلے کوئی پٹیشن دائر ہوئی کاز لسٹ بنی نہ ہی سماعت کا مرحلہ آیا، حکم نامہ اپ لوڈ کیسے ہوگیا۔ پردہ غیب میں پوشیدہ ماہرین قانون نے اس سارے معاملے کو کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی قرار دے دیا۔ 9 سوالوں کے جواب چارج شیٹ، شہر اقتدار میں ریفرنسز اور استعفوں کی افواہیں گشت کرنے لگیں۔و کلا کے ایک گروپ کی جانب سے تحریک کی دھمکی، ڈیڑھ درجن وکلا کیمروں کے سامنے جمع ہوئے نعرے بازی کی اور منتشر ہوگئے ارد گرد کے لوگوں نے استعفوں کو خارج از امکان وکلا تحریک کو فلاپ تحریک کا نام دے دیا۔ مشرف دور کی تحریک کے پیچھے ’’مائی باپ‘‘ تھے اب کون ہے۔ اس تحریک کے ایک سرگرم وکیل بعد ازاں جج بن گئے۔ پی ٹی آئی کے ایک بڑے عہدیدار نے ٹی وی ٹاک شو میں بتایا کہ فاضل جسٹس نے مجھ سے پوچھا ساری سیٹیں پی ٹی آئی کو دے دیں تو آپ کو اعتراض تو نہیں ہوگا اندھا کیا چاہے دو آنکھیں جواب دیا ہمیں بھلا کیوں اعتراض ہونے لگا۔ چنانچہ ساری سیٹیں پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈال دی گئیں، حالانکہ سو چھیدوں والی جھولی پھیلائی ہی نہیں گئی تھی سہولت کاری کام نہ آئی۔ پارلیمنٹ نے فیصلہ پر عملدر آمد سے انکار کرتے ہوئے 80 ارکان کو آزاد یا سنی اتحاد کونسل کے ارکان قرار دے دیا۔ اسپیکر نے مخصوص نشستیں پارلیمانی پارٹیوں میں تقسیم کرتے ہوئے ارکان کی تعداد ویب سائٹ پر جاری کردی۔ قانون منظور، صدر نے دستخط کر دیئے الیکشن کمیشن سات اجلاسوں کے بعد پھر سپریم کورٹ پہنچ گیا۔ 15 اکتوبر تک آر یا پار اہم فیصلے ہو جانے چاہئیں ورنہ افراتفری مچے گی۔ پارلیمنٹ کے ارکان نے کہہ دیا کہ ہم کسی خلاف آئین فیصلہ پر عملدرآمد کے پابند نہیں۔ الیکشن کمیشن نے بھی اپنی نظر ثانی درخواست میں اسی قسم کا عندیہ دیا ہے۔ 7 اکتوبر تک سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا تو کہانی ختم۔ سینئر صحافی انصار عباسی کے بقول ساری لڑائی تیرے جج میرے جج کی ہے یہ تقسیم اپنے خان صاحب نے ادارے کو تباہی سے ہم کنار کرنے کے لیے کی ہے۔ اڈیالہ جیل میں مقیم خان کے انقلاب کے خواب کرچی کرچی ہوگئے۔ دو جلسے کر کے دیکھ لیے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر گھروں سے نہ نکل سکا۔ خیبر پختونخوا کے ’’گلوبٹ‘‘ بھی لاہور جلسے میںپیٹھ دکھا گئے۔ اس وقت جتھہ لے کر پہنچے  جب روشنیاں گل ہوچکی تھیں۔ پنجاب سے پی ٹی آئی کا زوال شروع ہوگیا۔ بہت پہلے عرض کیا تھا کہ حال تحریک استقلال جیسا ہوگا۔ ’’پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں‘‘ خان اپنے ’’گلوبٹ‘‘ پر برہم پوری قیادت سے مایوس، لاہور کا چھوٹا سا جلسہ کر کے خان کو کیا ملا۔ مایوسی ڈپریشن اکتاہٹ جھنجھلاہٹ، شاید اسی بنا پر پنڈی کا جلسہ منسوخ کردیا۔ لانگ مارچ جیل بھرو تحریک اور جلسوں کے تجربات ناکام رہے تو یو ٹرن ابائوٹ ٹرن سینڈایزی جلسہ نہیں احتجاج ہوگا۔ احتجاج بھی کر کے دیکھ لیا۔ حکومت نے دفعہ 144 نافذ کر کے پنڈی سمیٹ کئی شہروں کو رینجرز کے حوالے کردیا۔ پنڈی میں احتجاج سے کس کو کیا پیغام دینا مقصود تھا۔ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ غصہ میں ارشاد فرمایا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ حضرت جی بھول گئے کہ کمرے کی کنڈی اندر سے نہیں باہر سے لگی ہے۔ نئی تقرری کے بعد خان کے دل میں نئے خوف نئے وسوسے جنم لے رہے ہیں۔ بقول سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ احتجاج اپنی جگہ لیکن ریاست سے مقابلہ ممکن نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کے نتیجہ میں سہولت کاری کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوگا۔ طے کرلیا گیا کہ خان کی رہائی سسٹم کی موت ہے جنگ کون جیتے گا؟ آئینی پیکیج منظور ہوگیا تو میدان پارلیمنٹ کے ہاتھ رہے گا۔ وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے دونوں چیف جسٹس اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر عوام کے مقدمات کا فیصلہ کریں گے۔ البتہ پی ٹی آئی کو اپنی درخواستوں کی سماعت کے لیے 2032ء کا انتظار کرنا پڑے گا۔ پی ٹی آئی والے اسی سے خوفزدہ ہیں ایک ویلاگر نے غصہ میں کہا کہ پی ٹی آئی پارٹی نہیں ہجوم ہے ہجوم انتشار کا دوسرا نام ہجوم خود خان کو تنگ کرے گا۔ سر پرست بھاگ گئے خان کو دکھ بھری خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔ ’’انقلاب فرانس‘‘ اکتوبر سے پہلے ہی انجام کو پہنچ گیا۔ جلسے دھرنے احتجاج ناکام آئی ایم ایف نے 7 ارب ڈالر قرضہ کی منظوری دے دی پہلی قسط ایک ارب  10 کروڑ ڈالر موصول ہوگئی۔ معیشت پٹڑی پر چڑھ گئی۔ حکومت نے پائوں جما لیے پارلیمنٹ ڈٹ گئی۔ ستاروں پر کمند ڈالنے والی ایک خاتون خان کے بارے میں دردناک کہانیاں سنا رہی ہیں۔ ایک ’’یوتھیا کڑی‘‘ نے کہا خان نہیں تو پاکستان نہیں۔ کڑی کے منہ میں خاک، پاکستان قائم و دائم رہنے کے لیے بنا تھا کوئی شخص ناگزیر نہیں۔ ناگزیروں سے قبریں بھری پڑی ہیں۔

 

تبصرے بند ہیں.