سیاسی مداخلت سے پاک،بیوروکریسی؟

66

اچھی حکومت کیلئے بہترین،تجربہ کار،پیشہ ور،اپنے شعبے میں ماہر،اہل اور دیانتدار انتظامی ٹیم کا ہونا اشد ضروری ہے،اچھے قوانین بھی اچھی حکومت کیلئے ناگزیر ہیں مگر آزمودہ فارمولا ہے بہترین قوانین کیساتھ نا اہل افراد کو حکومت سونپ دی جائے تو بھی خیر کا کوئی پہلو دکھائی نہیں دے گا لیکن بدترین قوانین کیساتھ اہل افراد کو زمام کار دی جائے تو وہاں خیر کی فصل ضرور پنپتی ہے،اگر چہ نتائج کا تناسب کم ہی ہو،بالکل ایسے ہی اگر کوئی حکومت بہترین منصوبہ بندی سے عوام دوست پالیسیاں وضع کرے مگر ذمہ داریاں نا اہل انتظامیہ کے سپرد کر دی جائیں تو نتائج صفر ہی بر آمد ہوں گے بلکہ خرابی کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔وطن عزیز میںحکمرانی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم پڑتا ہے کہ آزادی کے بعد ابتدائی عشرہ میں اگر چہ حکمران تا دیر کرسی اقتدار کی زینت نہ رہے مگر انتظامی ٹیم(بیوروکریسی)مستقل بنیاد پر فرائض انجام دیتی رہی نتیجے میں ملک ترقی و شادمانی اور خوشحالی کی منازل طے کرتا رہا،پہلے فوجی حکمران نے بھی اپنی پالیسیوں اور فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے اپنے وقت کے بہترین بیوروکریٹس کا انتخاب کیا،نتیجے میں ملک زرعی،صنعتی،معاشی انقلاب کی طرف تیزی سے پیش قدمی کرتا رہا۔ایوب خان کے بعد حکمرانوں نے بیوروکریسی پر انحصار کم کر دیا اور سیاسی افراد کو حکمرانی کیساتھ فیصلوں اور پالیسیوں پر عملدرآمد کی ذمہ داری سونپ دی نتیجے میں ترقی و خوشحالی اور خود انحصاری کا سفر ترقی معکوس کا شکار ہو گیا،ذوالفقار بھٹو کے دور سے یہ انحطاط شروع ہوا جو آج تک کسی نہ کسی طور ہمارے گلے پڑا ہوا ہے۔
نواز شریف کے کندھوں پر جب ضیاالحق دور میں پنجاب کی ذمہ داری کا بوجھ ڈالا گیا تو وہ رموز حکمرانی سے نا آشنا تھے،اقتدار کے ایوانوں اور بالکونیوں میں ہونے والی ریشہ دوانیوں سے بھی آگاہ نہ تھے نتیجے میں ان کو بیوروکریسی پر انحصار کرنا پڑا،انہوں نے اپنے دور کے بہترین بیوروکریٹس پر انحصار کیا اور دنیا نے دیکھا کہ نواز شریف نے اس وقت کے پیپلز پارٹی کے بزر ج مہروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ پنجاب کو ترقی و خوشحالی اور خود انحصاری کی شاہراہ پر ڈالا،انہوں نے بیوروکریسی پر صرف انحصار ہی نہیں کیا بلکہ انتظامی ٹیم کو اعتماد، اختیار، بھروسہ بھی دیا،مراعات سے بھی نوازا،سیاست کے طالب علم جانتے ہیں کہ85 سے88ء تک کے دور وزارت اعلیٰ میں ان کی منتخب ٹیم آج بھی کسی نہ کسی طرح ان کی دست راست ہے،نواز شریف کے برعکس شہباز شریف نے بیوروکریسی یا انتظامی ٹیم کو ذاتی ملازم سمجھا ،صبح شام ان کو اپنے در دولت پر طلب کیا،رات کو گھنٹوں انتظار کرایا اور اور اگلے روز علی الصبح پھر حاضری کا حکم دیکر گھر بھجوایا،نتیجے میں صرف ہلچل دکھائی دی کام کچھ بھی نہ ہوا،البتہ شہباز سپیڈ کو برقرار رکھنے کیلئے بیجا سختی کی گئی نتیجے میں شہباز شہباز ہو گئی مگر انتظامی ٹیم نہ بنی،پیپلز پارٹی دور میں انتظامی مشینری گو مگو کا شکار رہی،زرداری کی مانیں یا وزیر اعظم کی،بدقسمتی سے اسی کشمکش میں وقت بھی ضائع ہوا اور وسائل بھی مگر ملکی وقومی مسائل کا درماں نہ کیا جا سکا،البتہ عوامی سٹائل میں بینظیر انکم سپورٹ جیسے پروگرام شروع کر کے عوامی ہمدردی حاصل کی گئی تاہم مستقل ترقی کی راہ نہ اپنائی گئی،عمران دور میں عثمان بزدار نے بھی اپنی نا تجربہ کاری کی بدولت بیوروکریسی پر انحصار کیا اور سخت مخالفت کے باوجود ساڑھے تین سال پنجاب پر حکومت کی،صوبائی حکومت اور بیوروکریسی میں خوشگوار تعلقات کا دور میاں منظور وٹو اور چودھری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کا ہے،ان دونوں وزرائے اعلیٰ نے اپنے دور میں سائینٹفک طریقے سے بیورو کریسی کو آزمایا اور اطمینان سے حکومت کی ڈیلیور بھی کیااور صوبے کو کامرانی کی راہ پر بھی ڈالا۔
اچھی گورننس کے لئے ایک فارمولہ یہ بھی ہے کہ جس کا کام ہے،اسی کو کرنے دیا جائے یا اسی سے ہی کروایا جائے اور اس پر چیک رکھا جائے مگر ہر جگہ سیاست کو نہ گھسیٹا جائے ، ہمارے ملک اور خاص طور پر پنجاب میں یہ کوشش بھی کی گئی کہ بیوروکریسی کو گھر کی لونڈی بنا کر رکھا جائے جو حکومت بر سر اقتدار آتی وہ اس رسم کو اور بڑھاوا دینے کی کوشش کرتی جس کی وجہ سے اکثر اوقات معاملات یہاں تک پہنچا دیے گئے کہ ہر رکن اسمبلی اور وزیر کی حسب منشاء افسران تعینات کئے گئے جس کی وجہ سے گڈ گورننس تو دور کی بات گورننس کا ہی بٹھا بیٹھ گیا۔ پنجاب میں مریم حکومت بر سر اقتدار آئی تو یہ خبر سنی کہ بیوروکریسی کے تقرر تبادلوں میں سیاسی مداخلت نہیں کی جائے گی اور انکی تعیناتیاں میرٹ پر ہوں گی، حالات بتا رہے ہیں کہ یہ سیاسی نعرہ نہیں بیوروکریسی کے تبادلے وزیروں اور ارکان اسمبلی کے کہنے پر نہیں انکے اعلیٰ افسروں کی تجاویز اور میرٹ پر کئے جا رہے ہیں۔
آج پنجاب پر مریم نواز شریف کا سکہ چلتا ہے،ان کو اگر چہ والد نواز شریف کی رہنمائی حاصل ہے ،نواز شریف اپنے چالیس سالہ تجربہ و مہارت کو بڑی دریا دلی سے بیٹی کو منتقل کر رہے ہیں،مریم نواز روزانہ عوامی نوعیت کے کسی منصوبے،اہم پالیسی،فیصلے کا اعلان کرتی ہیں اور بیوروکریسی تندہی سے اس کی کامیابی میں جت جاتی ہے، پنجاب میں گڈ گورننس اور بیوروکریسی کا بہتر رویہ حکومت کی کارکردگی اور عوامی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے اہم ہے،گڈ گورننس کا مطلب ہے حکومت شفافیت، احتساب، قانون کی حکمرانی اور حکومتی معاملات میںعوامی شرکت ،اس میں عوامی وسائل کا منصفانہ استعمال اور عوامی بہبود کے منصوبوں پر توجہ دینا بھی شامل ہے،بیوروکریسی کا کردار گڈ گورننس کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ بیوروکریٹ حکومت کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں،بیوروکریسی کے بہتر رویے کا مطلب ہے عوامی خدمت میں ایماندار، محنتی اور غیر جانبدار ہوں، اور حکومتی کاموں میں غیر ضروری رکاوٹیں پیدا نہ کریں،پنجاب میں گڈ گورننس اور بیوروکریسی کے بہتر رویے کے لئے شفافیت اہم ہے،فیصلے اور حکومتی عمل عوام کے سامنے واضح ہونے چاہئیں تاکہ کسی قسم کی کرپشن یا بدعنوانی سے بچا جا سکے، ہر بیوروکریٹ اور حکومتی اہلکار کو اپنے اقدامات کا جوابدہ ہونا چاہئے اس سے ان کی کارکردگی میں بہتری آتی ہے اور بدعنوانی کم ہوتی ہے، عوام کو حکومتی فیصلوں اور پالیسیوں میں شامل کیا جانا چاہئے تاکہ حکومت عوام کی حقیقی ضروریات کو سمجھ کر اقدامات کر سکے،قانون کی حکمرانی یقینی ہو تاکہ ہر فرد اور ادارہ قانونی دائرے میں رہے اور کسی کو بھی قانون سے بالاتر نہ سمجھا جائے،عوامی خدمات جیسے صحت، تعلیم، اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کو مؤثر بنایا جائے تاکہ عوام کا حکومتی اداروں پر اعتماد بحال ہو۔پنجاب میں گڈ گورننس اور بیوروکریسی کے بہتر رویے کے لئے انتظامی اصلاحات، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، اور تعلیم و تربیت بھی ضروری ہیں تاکہ اہلکار اپنی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے نبھا سکیں،سست رفتاری یا سرعت سے یہ اقدامات ہو رہے ہیں اور بیوروکریسی ان کی کامیابی میں معاون ثابت ہو رہی ہے۔

تبصرے بند ہیں.