پنجاب یونیورسٹی کے نئے رئیس الجامعہ !!

153

گزشتہ کئی ماہ سے پاکستان کے مختلف صوبوں کی درجنوں جامعات مستقل سربراہان سے محروم ہیں۔ صوبہ پنجاب کی کم وبیش دو درجن جامعات کو بھی یہی صورتحال درپیش تھی۔ مثبت پیش رفت ہے کہ پنجاب ، سندھ اور اسلام آباد کی جامعات میں مستقل وائس چانسلروں کی تعیناتی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں صوبہ پنجاب کی سات جامعات میں مستقل سربراہان کی تقرری کا نوٹیفیکیشن ہو گیا ہے۔ امید ہے کہ بہت جلد دیگر تمام یونیورسٹیوں میں بھی سربراہان تعینات ہو جائیں گے۔ گزشتہ اڑھائی برس سے جامعہ پنجاب مستقل وائس چانسلر سے محروم تھی۔ تمام انتظامی اور تدریسی معاملات جر وقتی انتظام کاری کے تحت چل رہے تھے۔ایک طویل وقفے کے بعد پروفیسر ڈاکٹر محمد علی شاہ کو جامعہ پنجاب کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے۔اعلیٰ تعلیم اورعلمی تحقیق کے میدان میں ڈاکٹر محمد علی شاہ ایک معروف نام ہیں۔ آپ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سمیت پانچ جامعات کے وائس چانسلر رہ چکے ہیں۔ یہ امر یقینا قابل فخر ہے۔ تاہم جامعہ پنجاب کا وائس چانسلر بننا نہایت شرف اور اعزاز کی بات ہے۔ جامعہ پنجاب کا شمار پاکستان ہی نہیں برصغیر بلکہ جنوبی ایشیا کی قدیم ترین جامعات میں ہوتا ہے۔ اس جامعہ کا وائس چانسلر بننا ہر بڑے پروفیسر اور ماہر تعلیم کا خواب ہوتا ہے۔ اس مرتبہ بھی بہت سے قابل پروفیسر اس اعزاز کے متمنی تھے۔ لیکن یہ شرف ڈاکٹر محمد علی شاہ کے حصے میں آیا ہے۔
جامعہ پنجاب کی سربراہی ہرگز پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ اس جامعہ کے سربراہ کو بہت سے چیلنجوں کو سامنا رہتا ہے۔ ڈاکٹر محمد علی شاہ کو بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سب سے بڑا مسئلہ تو جامعہ کا مالی بحران ہے۔ پچھلے آٹھ دس سالوں سے پاکستان کی کم و بیش تمام سرکاری جامعات مالی مشکلات میں گھری ہوئی ہیں۔عمومی طور پر سرکاری جامعات فنڈز کی فراہمی کے لئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی طرف دیکھتی ہیں۔ تاہم کچھ سالوں سے کمیشن کا فنڈ بڑھنے کے بجائے مسلسل سکڑتا چلا جا رہا ہے۔ اس صورتحال کے باعث سرکاری جامعات کے مصائب میں اضافہ ہوا ہے۔ رہی سہی کسر راکٹ کی رفتار سے بڑھتی ہوئی مہنگائی نے پوری کر دی ہے۔ مہنگائی کے تناظر میں، ہر حکومت سالانہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا اعلان تو کرتی ہے، تاہم سرکاری جامعات کے فنڈز میں اضافہ نہیں کیا جاتا۔ سو لامحالہ حکومتی اعلانات کا سارا بوجھ سرکاری جامعات کو ڈھونا پڑتا ہے۔جامعہ پنجاب بھی کچھ سالوں سے مالی بحران کا شکار ہے۔ انتظامیہ کیلئے آمدن اور اخراجات میں توازن رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ یہ بحران اس نہج تک پہنچ گیا ہے کہ خزانہ دار صاحب کو ہر ماہ تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے باقاعدہ جوڑ توڑ کرنا پڑتی ہے۔ اس کے باوجود اساتذہ اور ملازمین کی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی ایک دقت طلب مرحلہ ہے۔ مزید مشکل یہ ہے کہ جامعہ پنجاب کو تقریبا دو ارب روپے سالانہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشنوں اور دیگر واجبات کی مد میں دینا پڑتے ہیں۔ اس ضمن میں عبوری وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود نے طالب علموں کی فیسوں میں سالانہ اضافے کا ایک مشکل لیکن صائب فیصلہ کیا تھا۔ اس کے باوجود جامعہ کی مالی مشکلات کم ہونے میں نہیں آ رہی ہیں۔نئے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شاہ کو جامعہ پنجاب کو مالی بحران سے نکالنے اور اسے ایک نفع بخش ادارہ بنانے کے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی وضع کرنا ہو گی۔
چند ماہ قبل جامعہ پنجاب میں ایک اینڈوومنٹ فنڈ بھی قائم ہوا ہے۔ تاکہ غریب لیکن ذہین طالب علموں کی مالی معاونت کا انتظام ہو سکے۔ معلوم نہیں کہ اس فنڈپر جامعہ کو اب تک کیا ردعمل ملا ہے۔ امید ہے کہ ڈاکٹر محمد علی صاحب اس جانب بھی توجہ مبذول کریں گے۔ سنتے ہیں کہ وہ جس بھی جامعہ میں رہے وہاں کے انڈوومنٹ فنڈ میں اربوں روپے کا اضافہ کیا۔اللہ کے فضل سے جامعہ پنجاب کے فارغ التحصیل طالب علم دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہیں۔ ا مید کی جا سکتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب عمدہ رابطہ کاری کے ذریعے جامعہ کے انڈوومنٹ فنڈ میں بھی اربوں روپے لانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔
پنجاب یونیورسٹی میں امن عامہ کو یقینی بنانا بھی ایک نہایت توجہ طلب کام ہے ۔ہر وائس چانسلر کو طلباء کی سیاسی سرگرمیوں کو قواعد و ضوابط کا پابند رکھنے کے لئے خاصی محنت کرنا پڑتی ہے۔اس جامعہ میں مختلف طلباء تنظیموں اور کونسلوں نے اپنے قدم جما رکھے ہیں۔ بسا اوقات یہ تنظیمیں ایک خاص حد سے آگے گزر جاتی ہیں۔ دنگا فساد اور مار دھاڑ کے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ وائس چانسلر صاحب کو اس پہلو پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ سنتے ہیں ڈاکٹر صاحب مضبوط اعصاب کے مالک ہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی سربراہی کے دوران انہوں نے وہاں فسادی گروپوں اور انتشار پسند عناصر کو نکیل ڈالے رکھی۔ یہ واقعہ بھی رونما ہوا کہ ایک شخص نے ان کی کنپٹی پر پستول تان لیا ۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ وہ گبھرائے بغیر پرسکون انداز میں کھڑے رہے اور اس قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے۔ بہرحال ،جامعہ پنجاب میں امن عامہ کو یقینی بنانا اور طلباء تنظیموں کو متعین حدود میں رکھنا بھی ڈاکٹر صاحب کے اعصاب کا کڑا امتحان ہو گا۔
بلاشبہ جامعہ پنجاب میں پاکستان کے نہایت قابل اور نامور پروفیسر موجود ہیں۔ تاہم یہاں اساتذہ سیاست کے نام پر بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ ملازمین یونین کے معاملات بھی وائس چانسلر کی توجہ کے متقاضی ہوں گے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہر بڑے عہدہ نشیں کے گرد مخصوص لوگوں پر مشتمل ایک ٹولہ منڈلانے لگتا ہے۔یا پھر مختلف افراد اور گروہ عہدوں اور مراعات کیلئے وائس چانسلر کی خوشنودی کے حصول کیلئے ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ یقینا نئے وائس چانسلر کے گرد بھی ایسے لوگوں کا گھیرا موجود رہے گا۔ ڈاکٹر صاحب کی بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ اس صورتحال سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں۔
جامعہ پنجاب میں عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں انہوں نے میرٹ اور انصاف پر قائم رہنے کا عہد کیا۔ کسی استاد نے یہ تجویز دی کہ میرٹ کا تقاضا ہے کہ احتساب پر بھی توجہ دی جائے۔ یہ یقینا ایک عمدہ تجویز ہے۔مثال کے طور پر اعلیٰ تعلیم کے نظام نے جامعہ کے استاد کی ترقی اور مراعات کو تحقیقی مضامین لکھنے کے ساتھ نتھی کر رکھا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ استاد کمرہ جماعت اور تدریس سے کسی قدر غافل ہو گیا ہے۔بالکل اسی طرح سرکاری جامعات میں انتظامی ، تدریسی اور مالی معاملات میں جوابدہی کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔کاش ڈاکٹر صاحب اس جانب بھی توجہ دیں۔ بہت اچھا ہو اگر نجی جامعات کی طرز پر جامعہ پنجاب میں طالب علموں سے اساتذہ کا فیڈ بیک لینے کا کوئی غیر جانبدار طریقہ کار وضع کیا جائے۔ ان اقدامات سے سرکاری جامعات کے لئے ایک روشن مثا ل قائم ہو سکے گی۔
بلاشبہ ڈاکٹر محمد علی شاہ سے قبل جامعہ پنجاب میں جو سربراہان رہے ہیں انہوں نے اپنی قابلیت اور صلاحیت کے مطابق(صفحہ 4پر بقیہ نمبر1)
جامعہ کی بہتری کیلئے کاوششیں کیں۔ ڈاکٹر نیاز احمد اختر، ڈاکٹر مجاہد کامران اور دیگرنے اپنے اپنے انداز میں جامعہ کو چلایا۔ حتی کہ عبوری وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود نے بھی اپنی بھرپور توانائیاں اس جامعہ کیلئے وقف کئے رکھیں۔ ماضی میں بہت سے عمدہ اقدامات ہوئے ہیں۔ یقینا کچھ نہ کچھ غلطیاں بھی سر زد ہوئی ہونگی۔ کچھ غلط فیصلے بھی ہوئے ہوں گے۔ تاہم اب ماضی کو کریدنے کے بجائے مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے۔ یہ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی شاہ کا دور ہے۔ دیکھتے ہیں کہ وہ جامعہ کی بہتری کیلئے کیا حکمت عملی وضع کرتے ہیں۔ کیا کیا اقدامات اٹھاتے ہیں۔ اپنے چار سالہ عہد میں جامعہ کو کس مقام تک پہنچاتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ وہ میری مادر علمی جامعہ پنجاب کو نئی بلندیوں سے روشناس کروانے میں کامیاب ہو سکیں۔ آمین۔
کالم لکھ چکی ہوں تو سوشل میڈیا پر ایک تصویر دکھائی دی ہے۔ تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جامعہ پنجاب کے سابق اور قائد اعظم یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز اختر جامعہ پنجاب کے نئے وی ۔سی ڈاکٹر محمد علی شاہ کو ان کے دفتر میں مبارکباد دینے تشریف لائے ہیں اور گل دستہ پیش کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر نیاز صاحب کا یہ انداز اور gesture بہت اچھا لگا۔ یہ طرز عمل ان کی مثبت سوچ اور شخصیت کا عکاس ہے۔

تبصرے بند ہیں.