جنرل عاصم منیر…وفا کا وعدہ

56

گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کراچی میں تھے وہاں انہوں نے فوجی مصروفیات کے علاوہ تاجر برادری سے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے جہاں پاکستان کی معاشی بدحالی ، ترقی اور ملکی معیشت پر سیرحاصل گفتگو کی وہاں انہوں نے قوم کو ایک سال اپنا کیا ایک وعدہ بھی یاد دلایا انہوں نے ایک سال قبل کہا تھا کہ ’’مایوس مت ہوں‘‘ یہ خطاب بھی جس دوران انہوں نے وعدہ کیا تھا ایس آئی ایف سی کے پلیٹ فارم پر تھا ان کا اپنے خطاب میں یہ کہنا تھا کہ میں نے آپ سے ایک بات کہی تھی کہ ’’مایوس مت ہوں مایوسی گناہ ہے ‘‘ میں نے آپ سے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان کی خوشحالی کے بارے میں کبھی امید نہیں چھوڑنا ہم معاشرے میں مایوسی پیدا کرنے والوں کو اجتماعی کاوشوں کے ساتھ شکست دیں گے کیونکہ ہم مختلف شعبوں میں غیرمعمولی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں انہوں نے تاجر برادری کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ آپ کے خوبصورت تعاون سے ہوا، آج پاکستان ترقی اور کامیابی کی منزل کی طرف رواں دواںہو چکا ہے جنرل عاصم نے اپنے اس مؤقف کو پھر دہرایا کہ روشن مستقبل پھر سب کو غیر متزلزل اعتماد ہونا چاہئے۔
یہ توتھا جنرل عاصم منیر کا خطاب جس میں انہوں نے اپنے وعدے کی بات کی اور قوم کو پھر آگے بڑھنے کی امید دلائی اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کہ 2018سے 2021ء تک پی ٹی آئی کی حکومت نے جس طرح ملکی معاشی ، سیاسی نظام کو تباہ کیا ، قرضوں کے اوپر قرضے لے کر ملک اور عوام کو جس تباہی کی طرف دھکیلا اس کے خطرناک نتائج ہم آج بھگت رہے ہیں ایسے ماحول میں دیکھا جائے تو جو کام اس ملک کے سیاستدانوں نے کرنا تھا وہ کام آرمی چیف جنرل عاصم منیر سرانجام دے رہے ہیں انہوں نے پہلے نگران اور اب میاں شہباز شریف کی حکومت کے ساتھ مل کر دن رات ایک کرتے ہوئے بیرونی دنیا سے رابطے کیے اور سعودی عرب ، کویت ، یواے ای، چین اور دوسرے دوست ممالک سے جس طرح کا تعاون مانگا وہ ان کو ملااور آج اگر پاکستان میں معاشی صورت حال بہتر ہورہی ہے آپ کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنا شروع ہوئے مہنگائی نے اپنے گھر واپس لوٹنا شروع کردیا گو 71سالوں کا گند ایک دم سے صاف نہیں ہوسکتا نہ ہمارے پاس الہ دین کا چراغ ہے نہ جنوں سے تعلق ہے کہ آنکھ جھپکتے ہی ہم چین یا جاپان بن جائیں گے اس کے باوجو آج ہمارا سفر بہتری کی طرف جو شروع ہوا ہے اس کا تمام تر دارومدار اور سہرا میاں شہباز شریف کو جاتا ہے وہاں جنرل عاصم منیر کا بے مثال کردار بھی آنے والے سالوں میں بڑا نظر آئے گا۔
اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جنرل عاصم منیر کا یہ مؤقف کہ جب تک پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا اور اگر آپ نے ملکی پالیسز کا تسلسل رکھنا ہے تو پھر ضروری ہے کہ سب سے پہلے ملک میں فتنہ سازی کا خاتمہ کرنا ہوگا اور آگے بڑھنے کیلئے سب کو ایک پیج پر آنا ہے جنرل عاصم منیر کے بارے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ وہ معاشی چیلنجز کو قبول کرنے کی بھرپور مہارت رکھتے ہیں اور یہ انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان کم ازکم برے حالات سے نکلنا تو شروع ہوگیا ہے دوسری طرف دیکھیں تو ہمارا سب سے بڑا نقصان جو ہوا یا ہررہا ہے وہ عوام سے ٹیکسز کی ناکام وصولی کا ہے اور ایف جی آر کی اس کارکردگی پر بہت اہم سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں جبکہ اس تصویر کا دوسرا عکس یہ ہے کہ پاکستان میں نئے ٹیکسز کے نظام کی شرح میں اضافے کے بغیر اس کی آمدن میں اضافہ ممکن نہیں ہوگاکہ اگر حاصل کی وصولی 75فیصد تک بڑھ جائے تو پاکستان کی ٹیکس آمدن جی ڈی پی ملا کے 36فیصد تک پہنچ سکتی ہے جبکہ ایف بی آر کی بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ اس ایشو کا آدھا بھی وصول کرنے میں ناکام ہیں ہمارے ملک کے اقتصادی چیلنجز پیچیدہ اور گہرے طورپر جڑے ہوئے ہیں آپ کو میری اس بات سے بھی اتفاق کرنا ہوگا پاکستان کی معیشت کا دارومدار داخلی ذریعہ ریاست کے تمام اخراجات کو پورا کرنے کیلئے کافی نہیں ہیں اس کیلئے ہمیں معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے انسانی وسائل کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے ان کے اہم پہلوؤں پر کام کرنا ہوگا کیوںکہ ہمارے ہاں جس طرح مہنگائی نے گھر گھر ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور یہاں ایسے گھرانوں کی تعداد آئے روز بڑھتی ہی چلی جارہی ہے جنہیں شایداس بات کا یقین نہیں کہ وہ اپنے خاندانوں کو باقاعدہ کھانا فراہم کرسکیں گے بھی کہ نہیں اور ہمارے ہاں سیاسی لڑائیوں میں کسی حکومت نے انسانی فلاح وبہبود کیلئے کام ہی نہیں کیے نہ اس ملک میں انڈسٹری لگائی کہ ہم 65فیصد یوتھ کو جس کا مستقبل بہت تاریک دکھائی دے رہا ہے کو روز گار فراہم کرتے ہماری بدقسمتی کہ ایسا نہیں ہوا، دنیا بھر میں پرائیویٹ سیکٹر ملک کے نظام کو چلاتے ہیں وہاں حکومتوں کا کام عوام کو روزگار اور مہنگائی سے دور کرنے کیلئے پیسہ جنرنیٹ کرنا ہے حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے اس کا کام یہ ہے کہ وہ کاروبار کرنے والوں سے پیسہ وصول کرکے عوام پر لگائے یہاں تو حکومت کاروبار کررہی ہے۔
جب تک آپ پاکستان میں انسانی وسائل کی طرف توجہ نہیں دیں گے بات بنتی نظر نہیں آرہی یہی تو بڑا مسئلہ ہے جو فوری حل طلب ہے اور اس کی طرف ہم توجہ ہی نہیں دے پارہے اگر ہمیں ترقی کرنا ہے تو پھر ہمیں اس دھوکے سے نکلنا ہوگا کہ قرضہ ملے گا تو ملک چلے گا گو وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے ایسے اقدامات اٹھانے شروع کر دیئے ہیں جہاں مالی اخراجات کو کم کیا جائے اور غریب کی بجائے امیر اور مراعات یافتہ طبقے پر بوجھ ڈالا جائے اور اگر شہباز شریف آنے والے سالوں میں آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوگئے تو اس میں جنرل عاصم منیر کی بہترین کاوشوں اور ان کے بے مثال تعاون کو یادرکھا جائے گا یہاں ہم پاک فوج کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ جہاں وہ ملک کے خارجی اور داخلی محاذوں پر اپنے دشمن اور دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما ہیں اور ملکی معاشی حالات پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اور آخری بات…
جنرل عاصم منیر نے قوم کو امید بھی نہیں دلائی وہ اس امید کیلئے دن رات کوشاں ہیں کہ پاکستان سنور جائے اور اچھے دن پھر آئیں۔ مجھے یہاں فیض احمد فیض کی مشہور زمانہ اور حالات پر کہی شاعری کے آخری بند بہت یاد آرہے ہیں ۔
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غالب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے حاضر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جومیں بھی ہوں تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

تبصرے بند ہیں.