خلوص کی ایک بوند ملک کو خوشحال بنا سکتی ہے !

90

آج کل آئینی ترامیم کے حوالے سے بحث ہو رہی ہے حکومت اس کے لئے اپنی عددی اکثریت میں اضافہ کرنے کے لئے پوری کوشش کر رہی ہے مگر ابھی تک اسے کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ ہو سکتا ہے اس کالم کی اشاعت کے وقت یا پھر اس کے چند روز بعد مجوزہ ترامیم ہو جائیں۔ حکومتی عہدیدار عوام کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ یہ ترامیم ہوں گی تو ان کے بھاگ جاگیں گے اور ملک ترقی کرے گا جبکہ ایسا نہیں ہے آئین میں عوام کی بہتری کے لئے بہت کچھ موجود ہے مگر آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔سوال یہ ہے کہ کیا ملکی آئین کے تحت من وعن ریاستی امور نمٹائے جاتے ہیں۔معذرت کے ساتھ ہر دور میں آئین کی تشریح مختلف ہوتی رہی ہے۔اقتدار میں موجود لوگ ہمیشہ آئین و قانون کو اپنے مخصوص مقاصد کے تناظر میں دیکھتے چلے آ ئے ہیں لہذا ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کچھ کرنا ہو تو سو راستے ہیں نہیں تو ہزاروں رکاوٹیں ؟۔
یہ کون سی منطق ہے کہ ایک بندہ ہی بااختیار ہو گا تو ملک کی خدمت ہو سکے گی ؟ یہ لمحات بڑے ہی تکلیف دہ ہیں ان کو خوشگواریت میں بدلنے کی کوشش ہونی چاہیے۔مگر عجیب بات ہے کہ سیاسی بکھیڑا ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا۔ہر روز کوئی نہ کوئی نئی شْرلی چھوڑ دی جاتی ہے جبکہ حالت یہ ہے کہ بے روزگاری مہنگائی اور آئے روز کے ٹیکسوں کی یلغار نے عام آدمی کو رْلا دیا ہے۔ہم اپنے کالموں میں بارہا یہ عرض کر چکے ہیں کہ لوگ یوٹیلیٹی بلوں سے سخت پریشان ہیں وہ خود کشیاں ہی نہیں اپنے جسموں کے اعضاء بھی فروخت کر رہے ہیں۔ان کی اس بے بسی کی طرف ارباب اختیار ذرا بھر بھی توجہ نہیں دے رہے۔وہ احتجاج کرتے ہیں تو بھی گوارا نہیں ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہی‘انہیں بے وقعت کر دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ وہ اس صورت حال سے چھٹکارا دلانے کے لئے حقیقی نمائندوں کو اقتدار میں لائے گی مگر حکومت آئینی ترامیم کرکے خود کو طویل عرصے تک اقتدار میں رکھنا چاہتی ہے اور کچھ شخصیات کے لئے مزید آسانیاں پیدا کرنا مقصد ہے لہذاپہلے تو وہ جلسوں کے ذریعے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہ رہی تھی اس سلسلہ میں اس نے ایک جلسہ لاہور میں کیا جو کچھ رکاوٹوں کے باوجود ہو گیا۔ حزب اقتدار لاکھ کہے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں یہ کہ عام انتخابات میں شفافیت تھی وہ یقین نہیں کر رہے خیر اب حزب اختلاف احتجاج کا راستہ اختیار کرنے جارہی ہے کیونکہ جلسے کرنے کی اسے اجازت نہیں دی جارہی اور اگر ملتی بھی ہے تو کسی ویرانے میں ؟ بہرحال حکومت کے لئے ایک ہی راستہ ہے جو لوگوں کے قلوب و اذہان کی طرف جاتا ہے۔ وہ ہے مشکلات میں کمی لانا‘ چھوٹے موٹے ریلیف دینا‘ انصاف سستا اور سہل فراہم کرنا مگر ادھر کوئی آتا ہی نہیں اگر کسی کا دھیان ہے تو وہ اقتدار کی طوالت اور اسے محفوظ بنانے کی جانب۔
آئین وقانون ان سب کو اس وقت یاد آتے ہیں جب انہیں اس کی ذاتی ضرورت ہوتی ہے۔ہماری ناقص رائے میں حکومت اس الجھیڑے میں پڑنے کے بجائے عوامی فلاحی منصوبوں پر توجہ مرکوز کرے تاکہ عوام اس کے قریب آسکیں۔یہ کیسی عجیب بات ہے کہ عوام کو سہولتیں دی نہیں جا رہیں ان کے پاس جو بچا کھچا جینے کا سامان ہے اسے بھی یوٹیلیٹی بلوں کی شکل میں سمیٹا جا رہا ہے ایسے میں وہ کیسے اس کے گْن گائیں گے۔عرض یہ ہے کہ ترمیمیں کتنی ہی کیوں نہ کر لی جائیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا کیونکہ جب عوام بپھر جائیں تو پھر منظر بدل جاتے ہیں پس منظر بدل جاتے ہیں۔ ویسے یہ بات ہر کسی کو معلوم ہونی چاہیے کہ آئین اور قانون جو کہتا ہے اس پر عمل پیرا نہیں ہوا جاتا بس جس کے پاس لاٹھی ہے وہی معتبرو معزز ہے اسی ہی کی چلتی ہے باقی سب ریلو کٹے ہوتے ہیں۔عدالت بڑی ہو یا چھوٹی اس کے فیصلے کوئی مان لے تو مان لے نہیں تو ہوا میں اڑا دے ایسا دیکھا گیا ہے دیکھا جا رہا ہے ؟۔
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں اپنی اپنی جگہ پر زور لگا رہی ہیں کہ وہ ایک دوسری کو لتاڑ دیں غالب آجائیں ایک عددی برتری کو ممکن بنانا چاہتی ہے تاکہ وہ سرخرو ہو سکے دوسری اس کو زیر کرنے کے لئے متحرک ہو رہی ہے احتجاج کرنے جا رہی ہے دباؤ میں لانا چاہتی ہے مگر جاوید خیالوی کا تجزیہ ہے کہ پی ٹی آئی خواہ کتنے ہی احتجاج کر لے اس کے سیاسی مخالفین پر رتی بھر اثر نہیں ہونے والا وہ چونکہ اس وقت حکومت ہیں اور حکومت جلد ہار نہیں مانتی شاید احتجاج اس لئے کیے جا رہے ہیں کہ انہیں ایک بڑی تحریک میں تبدیل کیا جا سکے مگر حکومت انہیں ایک حد سے نہیں بڑھنے دے گی کیونکہ اگر دیکھا دیکھی اس احتجاج میں عام لوگ بھی شامل ہو جاتے ہیں یا پھر مزدور تنظیمیں شریک ہو جاتی ہیں علاؤہ ازیں دیگر اس کی اتحادی جماعتیں آن ملتی ہیں تو یہ احتجاج عوامی احتجاج میں تبدیل ہو سکتا ہے لہذا حکومت کی پوری کوشش ہو گی کہ صورت حال قابو میں رہے‘‘ ۔
ہماری بھی یہی رائے ہے کہ حزب اختلاف خوامخواہ اپنی توانائیاں ضائع نہ کرے۔عدالتوں ہی سے رجوع کرے جو بھی فیصلہ آئے اسے قبول کرے اس کے حق میں آنے پر اگر حکومت کوئی ٹال مٹول سے کام لیتی ہے یا اس کا کوئی اور مطلب نکالتی ہے تو بھی وہ عدالتوں ہی کا رخ کرے کیونکہ آخر کار عدلیہ کی ہی بات ماننا ہوگی لہذا فریقین آئین و قانون کی بالا دستی کو تسلیم کرتے ہوئے ملک عزیز کو خوشحالی کے راستے پر گامزن کریں بہت ہو گیا سیاسی کھیل تماشا۔اب اس کی مزید گنجائش نہیں مسائل اتنے پیدا ہو گئے ہیں اور پھر گمبھیر صورت اختیار کر چکے ہیں کہ کوئی ایک فریق ان کو حل نہیں کر سکتا۔ ہماری استدعا ہے کہ دونوں دھڑے ایک میز پر آن بیٹھیں کہ ان میں سے کوئی ایک بھی جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ایک کے پاس ریاست کی طاقت اور دوسری کے پاس عوام کی طاقت لہذا دونوں طاقتیں مل کر معاشی اور سماجی انقلاب برپا کرنے کی جانب بڑھیں۔آئینی ترامیم آج ہو بھی جاتی ہیں تو کل یہ تبدیل بھی ہو سکتی ہیں بہتر یہی ہے کہ آئینی ترامیم کے بجائے سوچ میں ترامیم کریں پھر دیکھنا اس دھرتی پر کیسے کیسے پھول کھلتے ہیں !۔

تبصرے بند ہیں.