بلاول بھٹو نے آئینی عدالت بنانے کے لیے ضروری اور مجبوری کا بیان دیا تو میں نے سپریم کورٹ میں گزشتہ دس سال سے زیر التوا مقدمات کھوجناشروع کردیے۔سپریم کورٹ کے سینئررپورٹرعمران وسیم سے کچھ مددطلب کی۔ یوں یوں مقدمات کھنگالے۔پریشانی،تشویش، عدل وانصاف اورمعززمائی لارڈزکی ’’کارکردگی‘‘ کے بہتے دریاؤں کا سامناہوا۔انصاف کی اس دیگ کے کچھ چاول آپ بھی چکھیں۔2015میں ایک اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ سندھ پولیس کی بھرتیوں میں کرپشن ہوئی ہے۔ خبر کا چھپنا تھا کہ سپریم کورٹ ہیومین رائٹس سیل ایکٹو ہوا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی چیف جسٹس تھے بس پھر کیا تھا، یہ خبر پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قراردے کر16 دسمبر2015 کو کیس کاآغازکردیاگیا۔آئی جی سندھ کو کٹہرے میں بلالیا گیا اور کیس کی پہلی شنوائی 22 دسمبر کو رکھ دی گئی۔جسٹس امیرہانی مسلم کی سربراہی میں جسٹس گلزار اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل تین رکنی بینچ بنااور کراچی رجسٹری میں سماعت ہوئی لیکن کمال یہ ہوا کہ سپریم کورٹ کے اس تین رکنی بینچ نے پہلے دن سماعت شروع ہوتے ہی اگلے دن تک ملتوی کردی۔ صوبے کا آئی جی سب کام چھوڑ کرسپریم کورٹ حاضر ہوا تو اس کو کہا کہ کل پھر آنا۔اگلے دن 23د سمبر 2015کو پھر کیس لگا تو سپریم کورٹ کے تین رکنی سینئر بینچ نے یہ کیس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا۔
سپریم کورٹ نے دوبارہ کراچی رجسٹری کے لیے بینچ بنایا تو یہ اہم ترین کیس پھر9مارچ 2016کو سماعت کے لیے مقررکردیا لیکن اس بار بینچ کے دو جج بدل چکے تھے جسٹس گلزار اور مقبول باقر کی جگہ جسٹس خلجی عارف حسین اور شیخ عظمت سعید بینچ میں تشریف لاچکے تھے۔ بینچ بدل گیا لیکن اس کیس کی قسمت نہ بدلی۔ 16مارچ کو سماعت ہوئی پھر آئی جی سندھ حاضر ہوئے اور معزز بینچ کی طرف سے ارشاد ہوا کہ سماعت کل تک ملتوی کی جاتی ہے۔آئی جی اگلے دن 17مارچ کو پھر حاضر ہوئے لیکن کوئی فیصلہ ہونے کی بجائے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔ویسے تو یہ کیس کرپشن کے الزامات کاتھا جس کی انویسٹی گیشن ہونی چاہئے تھی اور انویسٹی گیشن بحرحال سپریم کورٹ نہیں کرتی۔اس کیس میں ہونا تو یہ چاہئے کہ تھا سپریم کورٹ پہلی ہی پیشی پر نیب یا انٹی کرپشن یا ایف آئی اے کو حکم دیتی کہ وہ اس خبر کی تحقیقات کرکے دوماہ میں رپورٹ دے تاکہ کسی نتیجے پرپہنچا جاسکے لیکن معزز عدالت نے اس کیس کو زندہ رکھا اور جب بھی کراچی رجسٹری میں بینچ سماعت کے جاتا تو یہ کیس لازمی مقررہوتا ۔
اس کیس کی اگلی تاریخ 5جولائی مقررہوئی تو بینچ پھر بدل چکا تھا اس بار بینچ میں شیخ عظمت سعید کی جگہ مائی لارڈ ثاقب نثار موجود پائے گئے۔5 جولائی کو سماعت ہوئی تو اس بینچ نے بھی پہلے سے چلے آرہے پیٹرن کی طرح سماعت اگلے دن یعنی 6جولائی تک ملتوی کردی۔ آئی جی اپنے کام چھوڑ کر حاضر ہوئے ان کو پھر اگلے دن کی تاریخ مل گئی۔اگلے دن پھر سماعت ہوئی اور نتیجہ وہی کہ سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی۔ جب اس کیس کی اگلی سماعت ہوئی تو بینچ کے ساتھ ساتھ سال بھی بدل گیا تھا جسٹس ثاقب نثار ملک کے چیف جسٹس بن چکے تھے سماعت کی تاریخ 9مارچ 2017تھی اور بینچ میں جسٹس مشیر عالم اور خلجی عارف کی جگہ قاضی فائز عیسیٰ اور فیصل عرب نے لے لی تھی بینچ کے سربراہ جسٹس امیر ہانی مسلم برقرارتھے۔اس بینچ نے بھی کیس ایک سماعت کے بعد غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا۔اگلی سماعت پورے ایک سال بعد مارچ 2018میں ہوئی۔اس دوران کئی جج ریٹائرہوچکے تھے صوبے کا آئی جی بھی بدل گیا تھا لیکن کیس زندہ تھا۔ بینچ کی سربراہی اب چیف جسٹس ثاقب نثار نے کی ان کے ساتھ فیصل عرب اور سجاد علی شاہ آگئے لیکن نتیجہ پھر ملتوی ہی رہا۔ اگلی سماعت تین ماہ بعد 12مئی 2018کوہوئی ۔اس بینچ نے کیس دوہفتے کیلئے ملتوی کیا لیکن اگلی سماعت سواماہ بعد ہوئی۔اس سماعت میں جسٹس فیصل عرب کی جگہ جسٹس منیب اختر لے چکے تھے۔ اگلی سماعت 28 جون 2018 مقررہوئی توپھرسماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کی گئی لیکن یہ ایک ہفتہ ایک ماہ پر مشتمل ہوگیا اور بینچ میں منیب اختر کی جگہ دوبارہ فیصل عرب آگئے22 جولائی کے بعد اگلی سماعت یکم ستمبر 2018کوہوئی لیکن نتیجہ وہی ہوا کہ سماعت ملتوی ۔ سپریم کورٹ کے آن لائن ریکارڈ سے دستیاب شواہد کے مطابق اس کیس کی سماعت پھر دوماہ بعد 27 اکتوبر 2018کوہوئی اور یہ سماعت اس کیس کی آخری سماعت ثابت ہوئی۔آخری بار اس کیس کی سماعت جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر اور مشیر عالم نے کی تھی۔اس کے بعد اس کیس کا کیا بنا؟کیوں دوبارہ اس کی سماعت نہ ہوئی اس کا کچھ اتا پتہ نہیں ۔ایک اخباری خبرسے شروع ہونے والایہ کیس آج 10سال بعد بھی سپریم کورٹ کی فائلوں میں زیر التوا ہے۔کون حساب دے گا کہ عوام کے پیسے اس کیس پر لگائے گئے۔ کتنے معزز ججز نے اس کیس کو سنا۔کتنے ججز اس کیس کو سننے کیلئے اسلام آباد سے کراچی گئے۔ وہاں عوام کے پیسوں پر قیام کیا اگر یہ کیس بنتا نہیں تھا تو کیس لیا کیوں گیا؟ اگر بہت اہم تھا تو دس سالوں میں اس کا کوئی فیصلہ کیوں نہیں کیا گیا۔اور 2018کے بعد سماعت کیوں نہیں کی گئی؟ اسی طرح محمد آصف بنام ریاست ایک جیل اپیل ہے۔ یہ شخص جیل میں قیدکاٹ رہا ہے اس نے 2015 میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ اس غریب قیدی کی یہ اپیل پانچ سال بعد 28 جولائی 2020کو جسٹس منظورملک اور جسٹس منصورعلی شاہ کے بینچ میں فکس ہوئی۔کمال یہ ہو اکہ اس بینچ نے صرف ایک سماعت کے بعد کیس ملتوی کیا اور آج مزید پانچ سال گزر گئے ہیں لیکن اس کیس کی باری نہیں آئی۔ یہ مجرم دس سال سے جیل میں ہے اور مزیدکب تک رہے گا کسی کو کوئی علم ہے نہ فکراور نہ پریشانی لیکن سپریم کورٹ کو سیاسی مقدمات کے فیصلوں اور ان پرعملدرآمد کی بہت پریشانی ہے۔
ایسے کیسزکاایک انبار ہے لیکن سپریم کورٹ نمٹانے اور فکس کرنے کی کوئی ترتیب تک بنانے میں ناکام ہے اورپاکستانی شہری اپنی ہی عدالت کی مصروفیات کی وجہ سے اپنے ہی ملک میں قید ہیں۔یہ وہ سوالات ہیں جوبلاول بھٹو کے بیان کوتگڑا جوازفراہم کرتے ہیں کہ الگ آئینی عدالت ضروری بھی ہے اور مجبوری بھی ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.