عدل کے نرغے میں جمہوریت

162

یوں تو ہمارا آج کا موضوع جمہوریت اور عدل ہے کیونکہ اقوامِ عالم میں جہاں عدل کی فراوانی نہیں ہوتی وہاں جمہوریت کی جگہ آمریت پنپنے لگتی ہے۔ سب سے پہلے مگر وزیرِاعظم میاں شہبازشریف کا قومِ مسلم کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہواجنرل اسمبلی میں دبنگ خطاب۔ میاںصاحب نے خودہی تلاوتِ قُرآنِ پاک فرمائی اور پھر لگی لپٹی رکھے بغیر غزہ اور کشمیر کامسلہ پیش کرتے ہوئے اقوامِ عالم کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔ اُنہوں نے کہا ’’غزہ میں نسل کشی ہورہی ہے۔ ہم فلسطین کی مقدس سرزمین پرایک بڑا المیہ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ فلسطینی بچے زندہ دفن ہورہے ہیں، جَل رہے ہیں اور دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے۔ غزہ کے بچوں کاخون صرف ظالموں کے ہاتھوں پرنہیں بلکہ اُن لوگوں کے ہاتھوں پربھی ہے جواِس ظالمانہ تنازع کو طول دینے میں شریک ہیں۔ اب لبنان میں بھی اسرائیلی جارحیت شروع ہوچکی جس سے خطے میں بڑی جنگ کاخطرہ بڑھ گیا ہے‘‘۔ وزیرِاعظم صاحب نے اسرائیلی وحشت وبربریت کاجو نقشہ کھینچا اُس میں اُنہوں نے براہِ راست اُن قوتوں کو موردِالزام ٹھہرایا ہے جو اسرائیل کے پُشت پناہ ہیں۔ سبھی جانتے ہیںکہ امریکہ اور یورپ ڈٹ کراسرائیل کے پیچھے کھڑے ہیں۔ وحشی نیتن یاہوکی رعونت اور فرعونیت کی سہولت کاری کرنے والے ہی اصل مجرم ہیںجنہیں یہ بھی نظرآرہا ہے کہ جنگوں میں کبھی بچوں، عورتوں، سکولوں، ہسپتالوں، مہاجر کیمپوں اور ایمبولینسز پریوں حملے نہیں کیے گئے جیسے اسرائیلی فوج کررہی ہے لیکن وہ پھربھی اسرائیل کی مددمیں ہمہ تن مصروف۔ 40ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے جن میں غالب اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ وزیرِاعظم صاحب نے عالمی ضمیرپر تازیانے توخوب برسائے اور پاکستانی وفدکے ساتھ کئی ممالک کے درجنوں سفیروں نے نیتن یاہوکی تقریر کا بائیکاٹ کرکے اپنا بھرپور احتجاج بھی ریکارڈ کروایا لیکن جب تک امریکہ اسرائیل کا پُشت پناہ ہے یہ جنگ جاری رہے گی۔
وزیرِاعظم نے فرمایا ’’جموںوکشمیر کے لوگ بھی ایک صدی سے حق خودارادیت مانگ رہے ہیں۔ بھارتی حکومت کشمیرمیں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی مذموم کوشش کررہی ہے۔ 5اگست 2019ء کو بھارت نے یک طرفہ اور غیرقانونی طورپر کشمیرکو ہڑپ کیا۔ بھارتی مظالم کے باوجود کشمیری نوجوان برہان وانی کی میراث پرعمل پیرا ہیں۔ پاکستان کسی بھی بھارتی جارحیت کافیصلہ کُن جواب دے گا‘‘۔پاکستان کو بیرونی امدادسے ہونے والی دہشت گردی کاسامنا ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کی موجودگی افغانستان میں ہے۔ پاکستان 80ہزار سے زائد فوجی اور شہری شہید کرواچکا اور دہشت گردی کی اِس جنگ میں 150ارب ڈالرز کی بھینٹ چڑھا چکا۔ افغان عبوری حکومت سے توقع ہے کہ وہ سرحدپار دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث گروہوں کے خلاف کارروائی کرے‘‘۔ وزیرِاعظم صاحب نے جب فرمایا کہ کسی بھی بھارتی جارحیت کافیصلہ کُن جواب دیا جائے گاتو یاد آیا کہ پارلیمنٹ میں اُس وقت کے وزیرِاعظم عمران خاںنے اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف کو جل بھُن کر جواب دیتے ہوئے کہا ’’تو میں کیا کروں، کیا بھارت پر حملہ کردوں؟‘‘۔ رہی حالیہ دہشت گردی کی بات توموجودہ دہشت گردی کایہ تحفہ بھی عمران خاںکا عطاکردہ ہے جنہوں نے اپنے دَورِحکومت میں ٹی ٹی پی کے 40ہزار بھگوڑوں کو افغانستان سے لاکر پاکستان میں بسایا۔
اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف۔ اِس حقیقت سے مفر ممکن نہیںکہ جمہوریت کا نخلِ نَو عدل کی آبیاری سے تن آور درخت میں ڈھلتا ہے مگر جہاں 37سالوں تک آمریتیں رہی ہوںاور عادل آمروں کوحقِ حکمرانی بخشتے رہے ہوں وہاںوہی کچھ ہوتاہے جوہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں۔ زورآوروں نے جب چاہا عدلیہ کی ملّی بھگت سے جمہوری حکمرانوں کوگھر بھیجا۔ میاں نوازشریف اور سیدیوسف رضاگیلانی کی مثال سب کے سامنے۔ ماضی قریب میں عادلوں نے میاں نوازشریف کونہ صرف تاحیات نااہل کیا بلکہ پابندِسلاسل بھی کیا۔ میاںصاحب ایسے جمہوری حکمران تھے جنہیں جمہور نے 3بار وزیرِاعظم منتخب کیااور تینوں بارہی عادلوں اور آمروں کی مہربانی سے وہ اپنی مدت پوری نہ کر سکے۔ تیسری بارعدلیہ اور زورآوروں نے اُنہیں محض اِس لیے وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کیاکہ وہ وزارتِ عظمیٰ کا ہُما لاڈلے کے سَرپر بٹھانا چاہتے تھے جس میں اُنہیں کامیابی بھی ملی۔ چیف جسٹس ثاقب نثارسے چیف جسٹس عمرعطابندیال تک عدل کی تاریخ اتنی ناقابلِ بیاں کہ یہ پاتال کی گہرائیوں میں گرتی ہوئی 130ویں نمبرپر پہنچ گئی۔ ہوش مگر پھربھی نہیں آیاکہ بابارحمتے کی باقیات ابھی موجود۔
اب صورتِ حال یہ کہ عادلوں کااصرار یہی کہ آئین وہی جووہ لکھ دیں۔ بندیالی کورٹ نے آرٹیکل 63-A کی مَن مانی تشریح کرڈالی اور کوئی اُن کاکچھ بگاڑ نہیں پایا۔ اِسی نظیر کو مدِنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے فُل کورٹ کے 13میں سے 8ججز نے ایک ایسا فیصلہ دیاجس کی نظیر پاکستان توکیا دنیا کی کسی عدالت میں نہیں ملتی۔ اِن 8معزز جج صاحبان نے وہ فیصلہ دیا ’’جس کا سارے فسانے میں ذکرہی نہ تھا‘‘۔ ہوا یوںکہ سُنّی اتحاد کونسل نے پشاور ہائیکورٹ میں ایک درخواست دی کہ اُسے مخصوص سیٹیں الاٹ کی جائیں۔ پشاور ہائیکورٹ نے یہ رِٹ مسترد کردی تو سُنی اتحاد سپریم کورٹ چلی آئی۔ اِس پورے کیس میں کہیں بھی تحریکِ انصاف درخواست گزار نہیں تھی لیکن 8 جج صاحبان نے فیصلہ دیاکہ سُنی اتحاد غلط، الیکشن کمیشن غلط اور پشاور ہائیکورٹ کافیصلہ بھی غلط۔ قومی اسمبلی میںجیتنے والے 81آزاد ارکان دراصل تحریکِ انصاف کے ہیں۔ بہانہ آئین کے آرٹیکل 187 کا بنایاجس کا قانون دانوںکی غالب اکثریت کے خیال میں کوئی جوازہی نہیں۔ 12جولائی کے مختصر فیصلے کے بعد حکومت کی جانب سے نظرِثانی کی اپیل ہوئی تومحترم چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائزعیسیٰ نے جوڈیشل کمیٹی کے باقی 2ارکان کو فرمایاکہ معاملہ چونکہ فوری نوعیت کاہے اِس لیے سُن لیا جائے مگر معزز جج صاحبان 2ماہ کی چھٹیوں کا بہانہ بناکر استراحت کے لیے چلے گئے۔ 2ماہ بعد جو تفصیلی فیصلہ آیااُس پر الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں درخواست دائرکی کہ چونکہ 12جولائی کے فیصلے کے بعد پارلیمنٹ 7اگست کو الیکشن ترمیمی ایکٹ لاچکی ہے اور سپیکر قومی اسمبلی بھی خط لکھ چکے کہ ترمیمی ایکٹ کے بعد 12جولائی کے فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں اِس لیے مزید وضاحت فرمائی جائے۔ بعدازاں الیکشن کمیشن نے اِسی درخواست کے ساتھ نظرِثانی کی اپیل بھی کردی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ایک طرف پارلیمنٹ ڈَٹ کر کھڑی ہے اور دوسری طرف سپریم کورٹ کے 8جج صاحبان۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ صاحب آئین کی عملداری کے لیے کوشاں اور اُمیدِواثق کہ وہ انشاء اللہ کامیاب ہوجائیں گے۔ دعاہے کہ جس میں ملک وقوم کی بہتری مضمرہو، وہی سامنے آئے۔

تبصرے بند ہیں.