اپنی اپنی مرضی کے سچ اور جھوٹ

51

میں نے اپنے پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کسی کی مرضی کا سچ اور کسی کی مرضی کا جھوٹ نہ بولنے والوں پر یہ زمین جتنی اب تنگ ہے شاید ہی اس سے پہلے کبھی ہوئی ہو گی، دوسری طرف میں ابھی یہ سوچ رہا تھا اگر ہمیں اپنی مرضی کا سچ اور اپنی مرضی کا جھوٹ بولتے ہوئے شرم نہیں آتی تو دوسروں کی مرضی کا سچ اور دوسروں کی مرضی کا جھوٹ بولتے یا لکھتے ہوئے یہ زمین ہمیں خود پر تنگ کیوں محسوسa ہونے لگتی ہے؟ اصل بات یہ ہے ہم صرف وہی لکھیں یا وہی بولیں جو نہ ہماری مرضی کا ہو نہ کسی کی مرضی کا ہو، جو ایسا سچ ہو جسے دنیا تسلیم کرے اور آپ کا ضمیر اگر زندہ ہے وہ اس پر آپ کو ملامت بھی نہ کرے، کل لاہور میں ایک حکمرانی دربار کی سکیورٹی پر مامور پولیس افسر نے میرے ایک کولیگ (صحافی) کا نام لے کر مجھ سے کہا سر ان سے گزارش کریں دربار شریف سے جب تبرک لے کر باہر نکلیں تو فوری طور پر لفافہ کھول کر رقم گننے کے بجائے یہ کام وہ گاڑی میں بیٹھ کے کر لیا کریں، یہ کام وہ سرعام کرتے ہیں تو پہلے سے بدنام صحافت مزید بدنام ہوتی ہے۔ امریکہ اور کینیڈا میں میرے اعزاز میں جو تقریبات منعقد ہوئیں ان سے اپنے خطابات میں وہی کچھ میں نے کہا جو میرے ملک کے مفاد میں تھا، سچ بولنے میں تھوڑی بہت ڈنڈی مارنے کی کوشش کی تو حاضرین نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا پورا سچ بولو، میں نے عرض کیا پورا سچ وہی بول سکتے ہیں جو نہ صرف خود بلکہ ان کی فیملیاں بھی پاکستان سے باہر ہیں، میں نے پاکستان واپس جانا ہے، جان تو ظاہر ہے سب کو پیاری ہوتی ہی ہے، مجھے وہ عزت بھی پیاری ہے جس کی پاکستانی معاشرے میں اب کوئی اہمیت ہی نہیں رہی کہ اب وہاں جو جتنا بے عزت اور بے غیرت ہے اتنا معتبر ہے البتہ ہم جیسے لوگ اپنے ضمیر کے اطمینان کو بھی اپنی عزت ہی تصور کرتے ہیں اور اس کوشش میں رہتے ہیں اپنے بزرگوں کی تربیت کی ہر حال میں ہم لاج رکھیں، امریکہ اور کینیڈا جانے سے پہلے اپنے سامنے بیٹھے ایک ناراض شخص سے میں نے کہا تھا اس طرح ڈرا دھمکا کر اگر آپ نے ہمیں مسلسل بزدل بنانا ہے پھر جب کڑا وقت اس ملک پر آیا ہم جیسے بزدل لوگ اپنے ازلی دشمن ملک کے مقابلے میں کیسے ڈٹ کر آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟ جیسے پہلے ہوتے تھے مگر کیا کریں ہم بلڈی سویلینز کی ایسی باتیں پتھر دلوں پر کہاں اثر کرتی ہیں؟ ان کی خواہش اور کوشش تو یہ ہوتی ہے بلڈی سویلنز سانس بھی ہم سے پوچھ کر لیں، یہاں ہمارے پر کاٹ کے ہمیں اڑنا سکھایا جا رہا ہے، ہمیں دیوار سے لگا کر حکم صادر کیا جاتا ہے بھاگو جہاں تک بھاگ سکتے ہو، ہماری زبانیں کاٹ کے فرمایا جاتا ہے بول کہ لب آزاد ہیں تیرے، اب خدشہ یہ ہے ہماری سوچوں پر بھی پہرے نہ بٹھا دئیے جائیں اور ہم اس الزام میں گرفتار کر لیے جائیں کہ ہمیں شک پڑا تھا آپ ہمارے خلاف سوچ رہے ہیں، جیسے دو پولیس والوں نے اپنے سامنے کھڑے ایک شخص پر اچانک تشدد کرنا شروع کر دیا، جب مار مار کر اسے لہو لہان کر دیا اس شخص نے پولیس والوں سے پوچھا سر جی مجھے میرا قصور تو بتا دیں؟ پولیس والے بولے ہمیں شک پڑا تھا تم ہمارے خلاف سوچ رہے تھے، ایک بار اپنی پیشی پر ایک صاحب بہادر سے میں نے کہا آپ پوری چھان بین کر لیں میری کوئی کمزوری الحمد للہ آپ کو نہیں ملے گی۔ اس بات پر ایک زبردست قہقہہ انہوں نے لگایا اور فرمایا ہم کمزوریاں ڈھونڈتے نہیں خود بناتے ہیں۔ انہوں نے بالکل ٹھیک فرمایا تھا، یہاں کوئی کسی کو بے عزت کرنے پر تل جائے کون اسے روک سکتا ہے؟ اور کون کسی کو یقین دلا سکتا ہے وہ ایسا نہیں ہے؟ شر پسند معاشرہ اس بے چارے کی بات پر یقین ہی نہیں کرے گا، ان حالات میں بہتر یہی ہے احتیاط برتی جائے، اگر بہادر بننا ہی ہے تو ان ہی کی سرپرستی میں بنا جائے جو اپنی ضرورت کے مطابق انتہائی بزدل لوگوں کو بھی بہادر بنا دیتے ہیں، ہماری سیاست اور صحافت میں اکثر لوگ ان ہی کے بنائے ہوئے بہادر ہیں، کسی زمانے میں ایک بڑے اخبار کی پیشانی پر لکھا ہوتا تھا جابر سلطان کے سامنے کلمہئ حق کہنا جہاد ہے، مجھے جب اس اخبار میں کالم لکھنے کا موقع ملا مجھ پر یہ راز کھلا یہاں کلمہ حق جابر سلطان سے پوچھ کر لکھنا جہاد سمجھا جاتا ہے۔ ہماری خواہش اور گزارش بس اتنی ہے نرم آوازوں کو برداشت کر لیا کریں، سب کو ایک ہی لاٹھی یا بوٹ سے ہانکنے کے نتائج اچھے نہیں نکلتے، جن لوگوں کا مشن یا ایجنڈا صرف اور صرف پاکستان کا مفاد ہو ان کی کوئی بات بُری لگے اس پر آگ بگولا ہو کر فوری طور پر انتقامی کارروائیوں پر نہ اتریں بلکہ ان کے مفید مشوروں پر عمل کریں، یہ حقیقت ہے ہمارے اداروں میں کچھ اچھے دل و دماغ والے لوگ بھی بیٹھے ہیں، سخت سے سخت بات بھی سلیقے سے اگر کہی یا لکھی جائے وہ اس کا بُرا نہیں مناتے، راولپنڈی میں ایک صاحب سے میں نے کہا تھا آپ ایک ایسے شخص کو اقتدار میں لائے تھے جس کی عالمی شناخت تھی جس پر دنیا اعتماد کرتی تھی، اس کا چہرہ سامنے رکھ کے دنیا سے پاکستان کے لیے آپ بہت کچھ حاصل کر سکتے تھے، افسوس اسے ایک دو عورتوں نے مینج کر لیا آپ نہیں کر سکے۔ میرا خیال تھا میری اس بات کا وہ بُرا منائیں گے پر وہ مسکرا کر بولے، بٹ صاحب کہہ تے تسی ٹھیک ای رہے او۔ المیہ یہ ہے اس وقت نفرت اور انتقام کی آگ دونوں طرف برابر ہے لگی ہوئی، ایک فریق نفرت اور زباں درازی میں اتنا آگے نکل جاتا ہے دوسرا خونخوار فریق جوابی طور پر جب حملہ آور ہوتا ہے تو پہلے فریق کے اکثر لوگوں کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں رہتا وہ بیرون ملک بھاگ کر اپنے یا کسی کے ایجنڈے کی تکمیل شروع کر دیں، دوسری صورت میں اپنے مخالف طاقتور فریق کے ساتھ خفیہ طور پر راضی نامہ کر لیں کہ آئندہ ہم یہاں آپ کی مرضی کا سچ ہی بولیں اور لکھیں گے اور بیلنس رکھنے کے لیے اگر آپ کے خلاف بھی بولنا پڑا تو اتنا ہی بولیں گے جتنی آپ اجازت دیں گے اور اپنی توپوں کا زیادہ تر رخ آپ کے حاضر سروس سیاستدانوں کی طرف موڑ دیں گے۔

تبصرے بند ہیں.