وقت، حالات، زمانہ، ترجیحات، طرز عمل کس قدر بدل گیا ہے، کسی گھر میں قرض اٹھانے کی نوبت آ جاتی تو سوگ کا سا سماں ہوتا تھا مگر اب نہیں، اب تو قرض فرض سمجھ کر اٹھایا جاتا ہے۔ ارادہ یہی ہوتا ہے کہ واپس نہیں کریں گے، ساتھ دعا جاری رکھی جاتی ہے قرض دینے والا بھول جائے یا فوت ہو جائے۔ دونوں میں سے کچھ نہ ہو تو پھر معاف کر دے، انفرادی سطح سے ہوتا ہوا یہ چلن اب قومی سطح پر آ چکا ہے۔ بین الاقوامی اداروں سے حاصل کردہ قرضے مع بھاری سود ادا کرنا ہوتے ہیں، ہم دلیری سے قرض لیتے ہیں اور دیوانہ وار خرچ کرتے ہیں۔ اس معاملے میں کوئی ہمارا ثانی نہیں ہے۔ آئی ایم ایف نے ہم سے ناک سے لکیریں نکلوا کر ہمیں اپنی بھاری شرائط پر 37 ماہ میں سات ارب ڈالر کا قرض دینا منظور کر لیا ہے۔ قریباً ایک ارب ڈالر فوراً دوسری قسط اسی مالی سال میں اور باقی آئندہ تین برسوں میں مختلف اقساط میں ادا کئے جائیں گے۔ تین برس میں سات ارب ڈالر کوئی بڑی رقم نہیں ہے اوسطاً ایک سال میں سوا دو ارب کے قریب ملیں گے، اتنی رقم تو دو افراد مہیا کر سکتے تھے۔ ایک بلڈر دوسرے کرنسی کاروبار سے منسلک ہیں۔ ان سے ادھار لے لیا جاتا تو شاید وہ بلاسود دینے پر رضامند ہو جاتے۔ آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرض دراصل ایک نیک چلنی کا سرٹیفکیٹ ہے جسے دکھا دکھا کر ہم دنیا بھر کو کنٹرول کرنے والے عالمی مہاجنوں سے مزید قرض لے سکیں گے۔ آئی ایم ایف عہدیداروں نے قرض کی منظوری کا اعلان کرتے ہوئے ہماری معاشی پالیسیوں کی خوب تعریف کی ہے۔ ہمارا مستقبل روشن قرار دیا ہے وہ یہ سب کچھ کیوں نہ کہیں ہم نے اس مرتبہ بجٹ ان کی خواہشوں کے مطابق ان ہی سے تیار کرایا ہے ان کی پسند سے ٹیکسز لگائے ہیں سو وہ بہت خوش ہیں، وہ مزید خوش ہوں گے جب ہم سود ادا کرنے کے لیے مزید قرض اٹھائیں گے۔ عام فہم سی بات ہے ڈیفالٹ کے کنارے پر ملک بھاری قرضوں کا سود پہلے سے تو ادا کر نہیں سکتا، معیشت سنبھلتے سنبھلتے وقت لیتی ہے وہ بھی اس صورت جب اللے تللے بند کئے جائیں۔ ایک ایک روپیہ سو مرتبہ سوچ کر خرچ کیا جائے، قرض کی رقم صرف ان منصوبوں میں خرچ کی جائے جو ناگزیر ہیں وہ دکھاوے، شوشا اور میک اپ پر خرچ نہ کی جائے۔ منصوبے بھی ایسے ہوں جہاں لاگت کے ساتھ منافع آئے۔ سات ارب ڈالر کا قرض منظور ہونیکی خوشی میں ارکان سینیٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے سے متعلق سفارشات منظور ہو چکی ہیں۔ اس حوالے سے اہم اجلاس میں سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی صدارت میں قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے ارکان سرجوڑ کے بیٹھے جہاں دیگر امور پر بھی غور و فکر کیا گیا۔ اجلاس میں گورنر سٹیٹ بنک آف پاکستان بھی شریک تھے۔ میڈیا میں جاری ایک بحث کے مطابق ان کی ماہانہ تنخواہ چالیس لاکھ روپے ہے دیگر مراعات، پٹرول، گھر، گاڑی، ڈرائیور، خانساماں اس کے علاوہ ہیں جبکہ ان کی دختر کی غیر ملکی میں تعلیم کے خرچ کا ستر فیصد خرچ بھی قومی خزانے سے جاتا ہے، قرضوں میں جکڑے سود کی رقم ادا نہ کرنے کے قابل ملک کی اشرافیہ ایسی ہی ہونی چاہئے تاکہ مزید قرض مزید سود لینے کی راہ ہموار ہوتی رہے۔ وزیراعظم پاکستان دورہ امریکہ پر ہیں ان کی واپسی پر مالیاتی دانشور ٹی وی سکرینوں پر ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حکومت کی اس عظیم الشان کامیابی پر اسے خراج تحسین پیش کرتے نظر آئیں گے اور بتائیں گے یہ سب کچھ کس کے ویژن کی بدولت حاصل ہوا۔
غیر ملکی یونیورسٹیوں میں مالیاتی مضامین پڑھنے والے طلباء کو ازبر کرایا جاتا ہے کہ قرض لیکر ترقی کی جاتی ہے، ترقی پذیر ملکوں سے تعلق رکھنے والے عقل کے اندھے یہ سبق یاد کرکے اہم عہدوں تک پہنچنے کے بعد اس ایجنڈے کی تکمیل میں تن من دہن سے مصروف ہو جاتے ہیں اور اپنی خدمات کا صلہ نقد دھن کی صورت وصول کرتے ہیں جو ان کے غیرملکی اکائونٹس میں جمع ہوتا رہتا ہے یہ مافیا دوران تعلیم غیر ملکی شہریت بھی حاصل کر لیتا ہے پھر دہری شہریت کا تڑکا لگنے کے بعد غریب ملکوں کو قرضوں میں جکڑنے کے بین الاقوامی پروگرام کو عملی جامہ پہناتا ہے ان کا درپردہ ایجنڈا ابھرتی ہوئی اقوام اور ان کی معیشتوں کو کنٹرول کرنا ایک حد سے تجاوز نہ کرنے دینا اور ہمیشہ کیلئے انہیں بڑی طاقتوں کا اسیر رکھنا ہوتا ہے۔ اس ایجنڈے پر پاکستان میں نہایت کامیابی سے عمل ہو رہا ہے۔ ہمارے یہاں وزرائے خزانہ آسمان سے اترتے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وہ ایک عذاب کی صورت نازل ہوتے ہیں، وقت رخصت ملک کو مزید کئی ہزار ارب روپے کا مقروض کر جاتے ہیں، نازل کردہ کوئی وزیر خزانہ یا کوئی وزیراعظم ایسا نہیں آیا جس نے ایک چوتھائی قرض اتارا ہو۔ ایسے ضرور آئے جو قرضوں کو دوگنا کر گئے۔ ایک دلفریب کہانی بار دگر سنائی گئی ہے کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا، یہ کہانی نوے کی دہائی سے سن رہے ہیں۔ اس دور میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی حکومتیں رہیں۔ اس دور میں سوا سترہ ارب ڈالر کا مزید قرض حاصل کیا گیا۔ 1999ء میں ایک نئی حکومت آئی جس نے دس برس میں ساڑھے تین ارب ڈالر کا قرض محض لیا یہ جنرل پرویز مشرف کا زمانہ ہے۔ 2008ء سے 2018ء تک ایک مرتبہ پھر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتیں رہیں اس دس برس میں 55ارب ڈالر کے قرض لئے گئے۔ پاکستان کے کل قرضے ایک سو دس ارب ڈالر میں سے نصف ان دس برس میں لئے گئے جبکہ نوے کی دہائی میں لیا گیا قرض آج تک کل قرض میں شامل کر لیں تو پاکستان کا تین چوتھائی قرض ان دو حکومتوں کے زمانے میں لیا گیا ہے۔ ایک ماہر معیشت ان اعداد و شمار کی تصدیق کر چکے ہیں، ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ملک کی عظیم خدمت کرنے کی دعویدار ہیں۔ آج کی ہر محفل میں سنایا جا رہا ہے۔ آج کی رات کا مزہ آنکھوں سے لیجئے۔ میں اس خیال سے متفق نہیں ہوں۔ میرا خیال ہے آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کے قرض کی منظوری کے بعد قرض کی مے کا لطف کچھ جدا ہوگا۔ طبلہ کھڑکنے والا ہے، معیشت تو کب کی کھڑک چکی۔ گزشتہ دو برس کے قرضے قوم کے ہوش اڑا دیں گے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.