آپ اس مزدور کی مایوسی کا اندازہ نہیں لگا سکتے،جس کودن بھر انتظار کرنے کے بعد بھی کا م نہ ملے،دیہاڑی نہ لگنے کی صورت میں اسے کس کرب کا سامنا ہوتا ہے، یہ صرف اس کا دل ہی جانتا ہے،خالی ہاتھ گھر لوٹتے وقت نہ تو اس کے پائوں اٹھتے ہیں نہ ہی سفر طے ہوتا ہے، تخیلاتی طور پر وہ منظر سامنے ہوتا ہے کہ گھر کا دروازہ کھلتے ہی بیوی بچوں کی نظر اس کے ہاتھ پر ہوتی ہے کہ باپ کما کر کیا لایا ،جس دکھ اور درد سے وہ گھر والوں کا سامنا کرتاہے وہ مزدور اور اس کا رب ہی جانتا ہے،تھکا ہارا یہ فرد نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے، سورج طلوع ہوتے ہی تازہ دم ہو کر مزدوری کی تلاش میں نکل پڑتا ہے، بچے امید سے رخصت کرتے ہیں، کہ اب سامان لے کر ہی وہ لوٹے گا، امید اور نا امیدی کی پگڈنڈی پر سفر کرتے کرتے اس کی عمر ایسے ہی بیت جاتی ہے۔
مزدوروں کے ہجوم میں ہر مزدور کی یہی کہانی ہے، کوئی فرد مزدور کی تلاش میں آتا ہے تو سب اسکی طرف بھاگ کھڑے ہوتے ہیں،کچھ تو بہت کم اجرت پربھی آمادہ ہو جاتے ہیں، ایسے مناظر ہر شہر، قصبہ کی چوکوں ،چوراہوں پر دیکھے جاسکتے ہیں، جب شہری بچوں کو تعلیمی اداروں میں چھوڑ اورناشتے کا سامان خرید کرتے ہیں، ان مزدوروں کے دلوں پر کیا بیت رہی ہوتی ہے ،شہر کے باسی اس اذیت سے لا علم ہوتے ہیں۔
دن بھر کھڑے رہنے والے مزدوروں کو کھانا کہاں سے ملتا ہے، کڑی دھوپ میں یہ سستاتے کہاں ہیں، جائے ضرورت کی سہولت انھیں میسر ہے کہ نہیں ،اس سے نہ تو سرکار کو سروکار ہے نہ ہی کسی قومی اور مقامی ادارہ کی یہ سر دردی ہے۔
اگر شہروں کے اعدادو شمار جمع کئے جائیں تو یہ تعدادہزاروں میں ہو گی جو دیہاڑی لگانے کے لئے بڑے شہروں کا رخ کرتی ہے،ان میں سے اکثر فٹ پاتھوں، اور پارکس میں رات گذارنے پر مجبور ہوتے ہیں،کچھ ہوٹلوں کے برآمدوں میں فرش پر دراز ہو جاتے ہیں، شہر میں مکان کا کرایہ یہ افورڈ کر ہی نہیں سکتے،جس ماہانہ مزدوری کا چرچا سرکار کی طرف سے کیا جاتا ہے، یہ طبقہ اس کھاتہ میں آتا ہی نہیں، کیونکہ اس کا کوئی ڈیٹا کسی ادارے کے پاس نہیں ہے،بعض شہری شکایت کرتے ہیں کہ مزدوری کی آڑمیں یہ نان رجسٹرڈ مزدور وارداتوں میں بھی ملوث پائے گئے ہیں، کچھ ہتھیار بھی رکھتے ہیں۔
ان میں بہت سے اچھے کاریگر بھی ہوتے ہیں، بعض پڑھے لکھے بھی ملتے ہیں، جو حالات کی ستم طریفی کی وجہ سے مشقت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ، شہری ہونے کے ناتے بنیادی ضرویات کی فراہمی تو ریاست کی ذمہ داری ہے تاہم بڑے شہروں میں بعض غیر سرکاری تنظیمیں ایسے مزدوروں کو ناشتہ فراہم کرتی ہیں، کچھ کھانا بھی دیتی ہیں، غالب امکان یہ ہے کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے یہ نہ تو خود پڑھ سکے ہیں، نہ ہی اپنے بچوں کو پڑھانے کا موقع مل رہا ہے، قومی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی سزا نسل در نسل سے انھیں مل رہی ہے۔
جس ریاست کے 80فیصد وسائل پر20 فیصد اشرافیہ قابض ہو، وہاں مزدور ابن مزدور پیدا ہونا ان کا مقدر ہے،ہرچند بہت سے قومی ادارے مزدورں کی فلاح کے لئے قائم ہیں،مگر صورت حال قابل رشک نہیں ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے تو سفید پوش کی کمر توڑ دی ہے، سرکار کی مقرر کردہ تنخواہ سے مزدور کی فیملی زندگی اور روح کا رشتہ کیسے قائم رکھ سکتی ہے؟۔ایک طبقہ بڑھتی ہوئی آبادی کو مزدوروں کی حالت زار کا سبب قرار دے رہا ہے مگر وہ ہزاروں ایکڑ پر پھیلے زمین کے قطعات جو ہر ایک جاگیر دار کی ملکیت ہیں انھیں نظر انداز کر دیتا ہے ایک اَن پڑھ مزدور ریاست پر بوجھ لگتا ہے مگر روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں روپئے کی بدعنوانی کی رقم چند افراد کی جیبوں میں جاتی اسے دکھائی نہیں دیتی۔ جب سے مزدوروں نے شہروں کا رخ کیا ہے، کسی ادارہ نے انکی آمد اور بے بسی کا نوٹس ہی نہیں لیا ہے،البتہ سندھ ہائی کورٹ کے معزز منصفین کی جانب سے دیہاڑی دار مزدوروں کوای او بی آئی،سمال انڈسٹریز سروسز انسٹی ٹیوٹ ادارہ جات میں رجسٹریشن کے لئے وکلاء سے دلائل مانگنا ہوا کا تازہ جھونکا ہے۔
دنیا بھر میں مزدوروں کی فلاح کے نت نئے پروگرام مرتب کئے جاتے ہیں،انشورنس، طبی سہولیات،بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے ہمارا المیہ ہے مزدور جو کارخانوں، فیکٹریوں،ہوٹلز کے باقاعدہ ملازم ہیں، انھیں بھی دھڑکا لگا رہتا ہے کب سیٹھ نوکری سے نکال باہر کرے، سرکار کی طے کردہ اجرت انکے نصیب میں کہاں ہے،سرکاری اعلانات اور زمینی حقائق میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
بھٹو دور میں ضلع کی سطح پر دفتر روزگار ہوا کرتے تھے، بے روزگار باقاعدہ رجسٹرڈ ہوتے، آسامی خالی ہونے کی صورت میں مذکورہ دفتر انھیں آگاہ کرتا تھا، یوںکچھ کو روزگار مل جاتا ،سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت درخواست پر دلائل سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ دیہاڑی دار مزدورں کی رجسٹریشن کے لئے اعدادوشما ر جمع کرنا پڑیں گے،ممکن ہے کہ اس کاوش سے انھیں وہ بنیادی حقوق مل جائیں جو آئین پاکستان میں رقم ہیں۔ دیہی زرعی مزدور کی حالت شہر کے مزدور سے زیادہ تکلیف دہ ہے، اسے زمیندار سے محض چند ہزار روپئے ماہانہ ملتے ہیں،اگرچہ کچھ دیگر سہولیات بھی دی جاتی ہیں، مگرخاندان کی ضروریات پورا کرنے کے لئے معاوضہ ناکافی ہوتا ہے،قرض میں ڈوبے مزدور کی زندگی غلاموں سے بھی بد تر ہوتی ہے، وہ رات کی تاریکی میںاچھے مستقبل کی امید لئے راہ فرار اختیار کر جاتا ہے، خاندان سمیت نئے زمیندار کا نوکر ہو جاتا ہے۔
سندھ کے وکلاء سے استدعا ہے کہ وہ دیہاڑی دار مزدوروں میں زرعی مزدور، گھریلو مردو خواتین ملازمین کو بھی شامل کریں، سرکار بھی ایسے مزدوروں کا ڈیٹا اکھٹا کرے، ہنر اور غیر ہنر مند افراد کے لئے الگ الگ پالیسی بنائے، جو مزدور اپنے کام کی مہارت رکھتے ہیں انھیں کسی سکل کونسل سے سرٹیفیکٹ کا اجراء کروائے اگر ممکن ہوتو دیار غیر میں ملازمت دلوائے، مذید برآںبغیر رجسٹریشن کے کسی بھی مزدور کے کام کرنے پر پابندی عائد کرے تاکہ اسکی آڑ میں جرائم پیشہ افراد کا قلع قمع ہو سکے۔ لیبرڈیپارٹمنٹ انکی رجسٹریشن کاآغاز کرے، قصبہ جات میں یہ کام ٹائون کمیٹی اور یونین کونسل کے ذمہ ہو، تاکہ قومی وسائل میں مزدور بھی شریک ہوں ،انکی نئی نسل مزدوری کا بوجھ اٹھانے سے بچ جائے اور کسی فن سے آراستہ ہو جائے، بندہ مزدور کے تلخ اوقات میں کچھ توکمی لائی جائے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.