اہل دانش کے نزدیک سیاست کا مقصد ایک ایسا نظم اجتماعی اختیار کرنا ہے جس سے معاشرے میں رائج غربت، جہالت اور غیر انسانی رواجوں کا خاتمہ ہوسکے اور انسانی معاشرہ تمدن کی معراج تک رسائی حاصل کرسکے۔ ہمارے یہاں سیاست صرف اور صرف اقتدار کے حصول اور اس کی بقا کے لیے حربے اور حیلے اختیار کرنے کا نام ہے۔ اہل سیاست گلی گلی خلقِ خدا کے آگے اپنی ایمانداری، غیر معمولی اہلیت اور بے گناہی کا ڈھول پیٹتے پھر رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ خلق خدا کے نالوں سے کبھی ان پر کوئی اثر پڑا ہو۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے سیاسی غلامی کی ابتدا کی اور آج اہل سیاست کے طفیل ہمیں مختلف اقتصادی معاہدوں کے نام پر معاشی غلامی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ پاکستان کی سیاست آج جس نہج پر ہے اس میں خارجی، جغرافیائی اور داخلی حالات کے حقیقی ادراک، عوامی مسائل کے حل، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور ایک قوم کی تشکیل کے عمل کے سوا ہر چیز موجود ہے۔ محمد حسن عسکری صاحب اپنے مضمون’’ تحسین ناشناس‘‘ میں فرانسیسیوں کے رویوں کے باب میں لکھتے ہیں کہ ’’ اگر کوئی قوم اتنی جرأت رکھتی ہے کہ فلوبیر (Flaubert) اور پروست (Proust)کو صحیح طور پر پڑھ سکے تو اس میں اور جتنی چاہے کمزوریاں پیدا ہوجائیں لیکن اس میں بزدلی اور بے ایمانی نہیں ملے گی‘‘۔ اِدھر ہم ہیں کہ قرآن مجید کے واضح احکام، حضور اکرمؐ کا اسوہ حسنہ، ابن خلدون، سرسید، اقبال جیسے اکابرین کی فکر و تحاریر کی موجودگی میں روبہ زوال ہیں:
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
ہمارے تعلیمی اداروں سے لاکھوں کی تعداد میں فارغ ہونے والے طلباء ہاتھوں میں ڈگریاں، آنکھوں میں خواب لیے نوکریوں کی تلاش میں سڑکوں پر رْل رہے ہیں اور ملک میں صورتحال یہ ہے کہ صنعتی پیداوار کے ادارے دن بہ دن بند ہوتے چلے جارہے ہیں اور جو چل رہے ہیں وہ اس قدر نقصان میں ہیں کہ اپنے لازمی اخراجات کے لیے بھی قرض کے محتاج ہیں۔ ملکی معیشت پیداواری کے بجائے درآمدی ہوتی چلی جارہی ہے۔ یورپ کے سرمایہ داروں نے کمیونزم کے غلبے سے نجات کے لیے حفاظتی اقدامات کیے اور آج وہ کم از کم اجرت (Minimum Wages) سے زندگی گذارنے کے لیے درکار اجرت (Living Wages) کے مقام پر آچکے ہیں۔ ہمارے یہاں سرکاری ملازمتیں بھی اب کنٹریکٹ پر ہورہی ہیں۔ نجی اداروں میں تو حال یہ ہے کہ نچلے مزدور طبقے کو کمپنیوں نے ٹھیکیداری نظام (Third Party) کے تحت ملازمت پر رکھا ہوا ہے۔
ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ زرعی زمینوں پر رہائشی کالونیاں بنائی جارہی ہیں۔ اور اس تیزی سے بنائی جارہی ہیں کہ اگر یہی رفتار رہی تو خدانخواستہ ایک وقت آئے گا کہ بنیادی اور معمولی زرعی اجناس بھی درآمد کرنا پڑیں گی۔ اس بڑھتے ہوئے تباہ کن رجحان کے آگے بند کون باندھے؟ حکومت اور سیاسی جماعتیں؟ ممکن ہی نہیں ہر حکومت اور ہر سیاسی جماعت میں کلیدی عہدوں پر اس گروہ کے نمائندے موجود ہیں ان کی موجودگی میں یہ کیسے ممکن ہے کہ حکومت یا کوئی سیاسی جماعت اس مسئلے کی روک تھام کے لیے کوئی قدم اٹھائے۔
ملک میں بے روزگاری دن بہ دن بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ایک نوکری کے لیے ہزاروں درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔ بیشتر سرکاری اداروں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ نوکری کی درخواست کے ساتھ ان کے بنک اکائونٹ میں ناقابل واپسی رقم بھی درخواست فیس کے نام پر جمع کرانا پڑتی ہے جسے ہزاروں امیدوار جمع کراتے ہیں اور متعلقہ ادارے نہ جانے کس مد میں اسے شامل کر تے ہیں۔ بے روزگار افرادکس طرح یہ رقم اپنے خوابوں کے حصول کے لیے ادا کرتے ہیں، اسے محسوس کرنے والا دل اہل سیاست کے پاس نہیں۔ اندازہ ہے کہ متعلقہ نوکری کی سال بھر کی تنخواہ اسی فیس سے پوری کر لی جاتی ہے۔ اس حوالے سے چند سال قبل یہ خبر بھی گرم رہی کہ درخواست فیس کے نام پر لاکھوں روپیہ لوٹنے کے لیے ان میں سے کچھ نوکریاں این ٹی ایس اور مختلف اداروں کی ملی بھگت سے جعلی طورپر شائع کی جاتی ہیں جب کہ حقیقت میں ان ملازمتوں کا وجود ہی نہیں ہوتاہے۔ ہماری کسی سیاسی جماعت کی جانب سے اس مسئلے پر آواز نہیں اٹھائی گئی ہے۔
علاج معالجے کی صورتحال یہ ہے کہ بڑے سرکاری ہسپتال بڑے شہروں ہی میں ہیں اور وہاں بھی جس معیار اور درجے کی سہولیات موجود ہیں وہ مایوس کن ہیں۔ چھوٹے شہروں کے لوگ علاج کے لیے بڑے شہروں میں آنے پر مجبور ہیں۔ مثال کے طور پر ڈی آئی خان کا رہائشی علاج کے لیے ملتان، پشاور، اسلام آباد یا پھر لاہور جاتا ہے۔ اسی طرح بنوں، کرک، کوہاٹ کا رہائشی علاج کے لیے پشاور یا پھر اسلام آباد کارخ کرتا ہے۔ یہی صورتحال سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں بھی ہے۔ ایک علاج کے اخراجات اس پر سفر ی اور دوسرے شہر میں رہائش و خورونوش کے اخراجات، لوگ کیسے پورا کرتے ہیں اس کا اندازہ اور ادراک اہل اقتدار و سیاست کونہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاسی جماعتیں حقیقی کردار ادا کرنے کے بجائے مفاداتی گروہ کے طور پر کام کرتی ہیں۔ یہاں مسائل کے حل کے لیے آواز نہیں اٹھائی جاتی بلکہ ان مسائل پر آواز اٹھا کر اپنی قیمت اور درجہ مقرر کرایا جاتا ہے۔ ایک تماشا اہل ہوس عید الاضحی پر بھی دکھلاتے تھے کہ روہنگیا کے مسلمانوں کی مدد کے نام پر ہر گلی، ہر سڑک اور ہرچوراہے پر قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے اشتہارات نظر آئے اور جیسے ہی عید الاضحی ختم ہوتی پاکستان میں روہنگیا کے مسلمانوں کا ماتم بھی تمام ہوتا۔۔ مگر اب یہ مکمل طور پر اس وجہ سے ختم ہوا کہ کھالوں کی قیمت اب وہ نہیں رہی جو چند سال قبل تھی۔
یہ ہیں وہ چند حقائق اور مسائل جن کے حل کے لیے ارباب اقتدار اور اہل سیاست کی توجہ کی ضرورت ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا مٹی کی محبت کا قرض آشفتہ سر مظلوم عوام پر ہی ہے یا ملک پر مسلط سیاسی گروہوں پر بھی اس کی کچھ نہ کچھ ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.