جب کسی ملک کواقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو حکومتیں عموماً بین الاقوامی مالیاتی اداروں، خاص طور پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ بتایا تو یہ جاتا ہے کہ آئی ایم ایف معیشتوں کو مستحکم کرنے، سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے اور مالی پریشانی کا باعث بننے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے قرض فراہم کرنے کے لیے قدم اٹھاتا ہے۔ تاہم، آئی ایم ایف پیکیج کی منظوری ایک اہم سوال کو جنم دیتی ہے کہ کیا اس قسم کے قرضے حاصل کرنا کسی ملک کے لیے خوشی کی بات ہو سکتی ہے یا نہیں؟
یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جو قومیں معاشی تباہی کے دہانے پر ہوں وہ IMF پیکیج کے تحت قلیل مدتی ریلیف لے سکتی ہے۔ اگرچہ یہ اپنی ہی طے کردہ کافی زیادہ سخت شرائط کے تحت غیر ملکی زرمبادلہ کی شکل میں فوری ریلیف تو فراہم کردیتا ہے اور یہاں سے پیکیج کی منظوری بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے ایک سگنل کے طور پر کام کرتی ہے کہ یہ ملک اپنے معاشی مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے اور یہ مقامی کرنسی کو مستحکم کر سکتا ہے، افراط زر کو کم کر سکتا ہے، اور بعض صورتوں میں، اقتصادی سرگرمیوں کو بحال کر سکتا ہے ۔یعنی مختصر مدت میںیہ ریلیف واقعی امید کی کچھ نہ کچھ وجہ تو بن ہی سکتا ہے لیکن بعض ماہرین اسے کسی بھی ملک کی آنے والی نسلوں تک کے لیے زہر قاتل تصور کرتے ہیں اورایک تگڑا موقف رکھتے ہیں کہ کسی بھی قوم کو بھوکے مر جانا چاہیے لیکن آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لینا چاہیے۔
بیان یہ کیا جاتا ہے اور ہم بھی کئی سال سے مشاہدہ کر رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی جانب سے فراہم کیے جانے والے قرضہ کی شرائط کافی زیادہ سخت ہوتی ہیں۔بظاہر ان میں کفایت شعاری جیسے اقدامات ، جیسے کہ عوامی اخراجات میں کٹوتی، زیادہ ٹیکس یا سرکاری اداروں کی تنظیم نو وغیرہ شامل ہوتے ہیں ۔ اس قسم کی شرائط کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی ملک میں مالی نظم و ضبط بحال کیا جائے اور بے روزگاری میں اضافے اور سماجی خدمات میں کمی جیسے مسائل پر کنٹرول کیا جائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں داخل ہونے کا مطلب اپنی تمام تر داخلی ، خارجی اور اقتصادی آزادی اور خود مختاری کو گروی رکھنا ہی ہوتا ہے۔ اور چونکہ اس قسم کے معاہدوں سے اوسط درجے کے شہری کے لیے زندگی کو مزید مشکل بنا دیا جاتا ہے اس لیے اس قسم کے پیکیج سے وابستہ خوشی کا احساس جاتا رہتاہے۔
واشنگٹن سے تازہ خبر یہ آئی ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈکے اجلاس میں نے پاکستان کے لیے سات ارب ڈالر کے قرضہ منظور کی منظوری دے دی ہے۔یہ نیا قرض 37ماہ پر محیط ہو گا اور 30ستمبر تک اس کی ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی پہلی قسط ملنے کا امکان ہے۔
اس موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے قرضہ کی منظوری پاکستان کی اقتصادی پالیسیوں پر اعتماد ہے۔ انہوں نے اس یقین کا بھی اظہار کیا ہے کہ ان شااللہ یہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا آخری پروگرام ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ معاشی اصلاحات کا نفاذ تیزی سے جاری ہے اور حکومت معاشی استحکام حاصل کرنے کے بعد معاشی ترقی سے متعلق اہداف کے حصول کے لیے سخت محنت جاری رکھے گی۔ ان کا کہنا تھاکہ سفارتی محاذ پر کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ملک میں کاروباری سرگرمیوں ، سرمایہ کاری اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں اضافہ عوام کا حکومت کی پالیسیوں پر اعتماد کا عکاس ہے اور اگر محنت کا یہی سلسلہ جاری رہی تو ان شاء اللہ یہ پاکستان کا آخری آئی ایم ایف پروگرام ہوگا۔
وزیراعظم نے پیکیج کے حوالے سے تعاون پر سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا اور ان کی ٹیم کا بھی شکریہ ادا کیا۔
وزیر اعظم شہباز نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنی حکومت کو درپیش معاشی مشکلات کا اعتراف کیا لیکن اس اعتماد کا اظہار کیا کہ ملک اقتصادی بحالی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خدا کے فضل اور حکومت اور تمام اداروں کی مشترکہ کوششوں سے ہم نے اہم چیلنجز پر قابو پالیا ہے۔ عالمی ریٹنگ ایجنسیوں کے حالیہ جائزوں کا حوالہ دیتے ہوئے، وزیراعظم نے اہم اقتصادی اشاریوں میں بتدریج بہتری کی طرف اشارہ کیا، جس سے یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان کا مالیاتی نقطہ نظر بہتر ہونا شروع ہو رہا ہے۔
حکومتوں کے لیے، آئی ایم ایف پیکیج کی منظوری کو معاشی استحکام کے لیے ان کی کوششوں کی توثیق کے طور پر دیکھا اور بتایا جاتا ہے۔ یہ پالیسی سازوں کو کچھ سانس لینے کی جگہ حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے اور مکمل اقتصادی بحران کو روکنے میں مدد کرتا ہے۔ لیکن عام شہریوں کے لیے، آئی ایم ایف کی طرف سے پیش کردہ شرائط مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ اس سے یہ تضاد پیدا ہوتا ہے کہ حکومت پیکیج کی منظوری کا جشن مناتی ہے، جبکہ عوام اس کی شرائط کا خمیازہ بھگتنے کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔
پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پیکیج کی منظوری پر عوام کی طرف سے ملے جلے ردعمل کا سامنا ہے۔ کچھ لوگ اسے بدتر معاشی تباہی سے بچنے کے لیے ایک ضروری قدم کے طور پر دیکھتے ہیں۔ دوسرے اسے قومی خودمختاری کے حوالے کرنے اور آبادی پر مشکلات مسلط کرنے کے طور پر دیکھتے ہیں۔اس ساری صورتحال میں سیاسی رہنماؤں بالخصوص حکومت میں شامل لوگوں کوآئی ایم ایف کے مطالبات کو پورا کرنے اور اپنے شہریوں کی عدم اطمینان کو سنبھالنے کے درمیان ایک سخت توازن عمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں سے منسلک اقدامات کئی ممالک میں مظاہروں اور یہاں تک کہ حکومت کے خاتمے کا باعث بھی بن چکے ہیں۔اس طرح، آئی ایم ایف پیکیج کی منظوری غیر محفوظ خوشی سے زیادہ محتاط امید کی بات ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.