پاکستان چھوڑنا چاہتے ہو؟

497

یہ میرے بہت تکلیف دہ تھا جب پنجاب یونیورسٹی کے کمیونیکشن سٹڈیز کے سٹوڈنٹس کی ہال میں موجود 80سے 90فیصد سٹوڈنٹس نے پاکستان چھوڑنے کے سوال پر ہاتھ کھڑے کر دئیے اور جب ان سے پوچھا گیا کہ کون سے طالب علم ہیں جو اپنے ملک کو کسی صورت نہیں چھوڑنا چاہتے تو یہ تعداد دس، پندرہ فیصد سے زیادہ نہیں تھی۔ میرے بہت سارے دوستوں کا کہنا ہے کہ میں پاکستان چھوڑنے کی خواہش کو پاکستان سے مایوسی، بدگمانی اور نفرت کے طور پر کیوں لیتا ہوں تو میرا واضح جواب ہے کہ نفرت کے لفظ کو بیچ سے نکال دیجیے مگر کیا یہ مایوسی اور ناشکراپننہیں ہے ورنہ کون کسی کو چھوڑتا ہے چاہے وہ وطن ہو، والدین ہوں یا محبوبہ، چھوڑنے کے پیچھے کچھ نہ کچھ تو ضرور غلط ہوتا ہے۔
اس بحث پر جانے سے پہلے میں ایک بات واضح کر دوں کی پاکستانیوں نے جس طرح دھڑا دھڑ بچے پیدا کئے ہوئے ہیں کہ ہمارے ساٹھ فیصد سے بھی کہیں زیادہ اس وقت یوتھ ہے تو کوئی حرج نہیں کہ پاکستان سے تربیت یافتہ نوجوان باہر بھیجے جائیں چاہے وہ انجینئر ہوں، ڈاکٹر ہوں یا محض کُک یا الیکٹریشن۔ اس بات پر غور کیجئے کہ ملک کو اس وقت ڈالرز ( یعنی زرمبادلہ) کی اشد ضرورت ہے۔ ہم نے ایکسپورٹ کوالٹی کی جتنی فیکٹریاں لگائی ہوئی ہیں ، ظاہر ہے ان کو لگانا اور چلانا بڑا کام ہے، انہوں نے پچھلے برس کوئی تیس ارب ڈالر کی ایکسپورٹس کی ہیں جبکہ کم وبیش انہی کے برابر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے ریمی ٹینسز بھیجی ہیں تو کیا یہ اچھا کام نہیں ہے کہ ہمارے بچے سکِلڈ ہوں ، وہ بیرون ملک چلے جائیں اور وہاں سے ڈالر بھیجتے جائیں جن سے ان کے ماں باپ ، بیوی بچے بھی خوشحال ہوں اور ملک کی ضرورت بھی پوری ہو۔میری بات کا مطلب یہ ہے کہ ہم جسے برین ڈرین کہہ کے تنقید کرتے ہیں اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ مجھے انڈیا ہرگز اچھانہیں لگتا مگر یہ حقیقت ہے کہ بھارتی نوجوانوں نے تعلیم اورمہارت کے ساتھ باہر نکل کے دنیا بھر کی اہم ترین کمپنیاں سنبھالی ہوئی ہیں جو ہمارے دشمن کی جدید دور میں طاقت کا بڑا ذریعہ ہیں۔
اب آپ پوچھیں گے ایک طر ف تُم اپنی تکلیف بیان کرتے ہیں کہ پاکستان کے نوجوان باہر جانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف تم سراہتے ہو ، کہتے ہواس سے ڈالراور ریال بناو، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے تو میرا جواب ہے کہ باہر جانے کی دواقسام ہیں۔ پہلی قسم یہ ہے کہ ہمارے نوجوان اچھے روزگار کے لئے باہر جاتے ہیں اور وہاں سے زرمبادلہ بھیجتے ہیں تو یہ ایک قسم ہے لیکن اگر وہ اس نیت کے ساتھ جاتے ہیں کہ کسی بادشاہ یا کسی ملکہ کی حکمرانی تسلیم کر لیں، اگراس ملک کی پاکستان سے جنگ ہو تو وہ اس ملک کی طرف سے لڑیں یعنی امیگریشن لے لیںتو یہ بالکل دوسری قسم ہے ۔ میرا اصل شکوہ بھی یہی ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں کو ایک بہت بڑی سازش کے تحت اپنی مادر وطن سے برگشتہ او ر مایوس کیا جا رہا ہے اور اس کے پیچھے باقاعدہ طور پر ایک سوچا سمجھا سیاسی ایجنڈا ہے۔ یہ وہ سیاسی ایجنڈا ہے جو پاکستان کو اس طرح توڑنا چاہتا ہے جس طرح شیخ مجیب نے توڑا تھا۔ دانشورانہ گمراہیاں اورفکری مغالطے پیدا کرنے والے سادگی سے سوال کرتے ہیں کہ کیا شیخ مجیب کے پاس اکثریت نہیں تھی اوراس کے ذریعے وہ تمام گناہ کیمو فلاج کر دیتے ہیں جو اس نے کلمے کے نام پر بنی ہوئی ریاست کے خلاف بھارت جیسے مکروہ دشمن کے ساتھ مل کر کئے۔ شیخ مجیب کی پاکستان دشمنی اتنی شدید اورمکروہ تھی کہ اس کی بیٹی بھی پاکستان کے لئے نرم گوشہ رکھنے والوں کو پھانسیاں دیتی رہی۔ یہ سیاسی طبقہ وہ ہے جواپنے اقتدار کے لئے قوم کو اپنی ہی فوج کے ساتھ لڑواتا ہے۔ وہ ملک جس میں نظریہ اکٹھے رکھنے والی قوت کے طور پر تیزی سے کمزور ہو رہا ہے، معاشی حالات ایسے ہوں کہ عوام کو مشکلات کا سامنا ہو توایسے میں ملک کو جوڑے رکھنے والی واحد قوت یعنی ایک قومی نظریاتی فوج سے عوام کو لڑوانے والے درحقیقت اس ملک کو ختم کرنے کی سازش کر رہے ہوتے ہیں اور اگر کسی کو اس پر شک وشبہ ہے تو وہ حکیم سعیدشہید، ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم اور عبدالستار ایدھی مرحوم کی باتیں پڑھ، سن اور سمجھ لے۔ نوجوان نسل میں فکری مغالطے پیدا کرنے والے کہتے ہیں کہ ان کے آباؤ اجداد خود فوج میں رہے ہیں اور میں اس بچگانہ دلیل پر ہنستا ہوں جب میں فوج سے نکلے ہوئے حیدر مہدیوں اور عادل راجائوں کو دیکھتا ہوں۔ ہماری صحافت میں بھی بہت سارے خوارجی ہیں جوخود ہی درست سمجھتے اور دوسرے سب کو واجب القتل گردانتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نوجوان نسل کو پاکستان کی مٹی، پاکستان کی معیشت اور پاکستان کی فوج سے برگشتہ کر رہے ہیں، جی ہاں، یہی وہ طبقہ ہے جو کہتا ہے کہ اگر ان کے پاس اقتدار نہیں ہے تو شیخ مجیب کی طرح پاکستان ٹوٹ جائے اور عمران خان کی طرح اس پر ایٹم بم گرا دیا جائے۔ یہ لوگ نوجوانوں کو معاشی مشکلات سے گمراہ کرتے ہیں لیکن اس وقت ان کے پاس جواب نہیں ہوتا جب ان سے کہا جائے کہ پاکستان میں مہنگے ڈالر اورمہنگے پٹرول کی وجہ آئی ایم ایف سے توڑا ہوا معاہدہ بنا۔ پاکستان ڈیفالٹ کے کنارے پر پہنچا دیا گیا اوراس کے بعد آئی ایم ایف اورورلڈبینک کے باہر مظاہرے کئے گئے کہ ہماری مادر وطن کی معاشی لائف لائن کاٹ دی جائے۔ یہ وہ ناخلف اولاد ہے جو وینٹی لیٹر پر پڑی والدہ کے آکسیجن کے پائپ پر پاوں رکھ کر کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی کہ دیکھو ، دیکھو ڈاکٹر کی نااہلی سے ماں مرر ہی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نو مئی برپا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم فوج سے محبت کرتے ہیں، شیخ مجیب کو باپ کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان کے وفادار ہیں، فتنے کا اندھا دھند دفاع کرتے ہیں اوردعویٰ کرتے ہیں کہ غیرجانبدار ہیں۔
مجھے اپنے نوجوانوں سے کہنا ہے کہ خدا کے واسطے اپنے ارد گرد دیکھو۔ کیا تم اپنے والدین سے کہیں بہتر زندگی نہیں گزار رہے۔ ستر، اسی کی دہائی میں کتنے گھروں میں گاڑیاں او ر ائیرکنڈیشنر ہوتے تھے اور اب کتنے گھروں میں ہیں۔ پہلے کتنے گھروں میں انجینئر ڈاکٹر اور بیوروکریٹ تھے اوراب کتنے گھروں میں ہیں۔ پاکستان نے بہت ترقی کی ہے اور ابھی عمرانی پراجیکٹ کے بعد بہت کرنی ہے۔ اگر تم پاکستان چھوڑنا چاہتے ہوتو تمہاری اپنی مرضی ہے مگر جو مزے پاکستان میں ہیں وہ کسی دوسرے ملک میں نہیں ہیں۔ا گر تمہیں یقین نہ ہو تو دوردراز کے ملکوں میں محنت مزدوری کرنے والوں سے پوچھ لو کہ کس حال میں رہتے ہیں۔تم یو اے ای یا یورپ میںسولہ سولہ گھنٹے کام کرسکتے ہو، وہاں ٹریفک سگنلز سمیت ہر قانون پر عمل کر سکتے ہو تو اگر تم یہ سب پاکستان میں کر لو تو یقین کرو پاکستان تمہارے اور ہمارے سب کے لئے دوبئی اور یورپ سے بہتر بن جائے گا، آزمائش شرط ہے۔

تبصرے بند ہیں.