شہناز شیخ…40سال بعد…! (آخری حصہ)

36

اس زمانے میں طویل ریہرسلز ہوتیں، بڑے ہدایتکار اور بڑے فنی ناموں نے بڑے نام پیدا کئے۔ اگر آج اور اس دور کے ڈراموں کا موازنہ کروں تو آپ کو ایک بات بڑی واضح تصویر دکھائی دے گی وہ بہترین عکاسی کا دور تھا اس عکاسی کا جب ماحول اچھے ہوا کرتے تھے اور اس اچھے ماحول پر ڈرامے بنتے۔ آج کی طرح نہیں کہ ہر ڈرامے میں رونے پیٹنے، طلاقیں، ماں باپ کی بے عزتی، رشتوں کا احترام نہ کرنا، نئی اور پرانی نسل کا ٹکراؤ۔ آج آپ کسی بھی ڈرامے کو دیکھ لیں۔ وہاں کیا نہیں دکھایا جا رہا اس سلسلے میں چند روز قبل میں نے ایک بڑے نامور ٹی وی ڈائریکٹر سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ میرا نام نہیں دینا بات یہ ہے کہ ڈراموں کے حوالے سے اب آپ کے پاس چوائس نہیں رہی کہ نہ وہ رائٹر رہے جو زمانوں کو لکھا کرتے تھے۔ آج صرف رشتوں کو لکھا جاتا ہے ہر گھر کی کہانی کو لکھا جاتا ہے۔ آج کا ڈرامہ تو کتھارسس ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اب یہ ٹی وی کا زمانہ نہیں رہا۔ اس کی جگہ سوشل میڈیا نے لے لی ہے۔ پہلے زمانے میں بھی بہت کچھ ہوا کرتا تھا مگر ان کو نوٹ نہیں کیا جاتا تھا۔ اس وقت بھی یہی لوگ تھے یہی کلاسز تھیں، کوئی کسی کی تصویر یا کسی کی ریکارڈنگ نہیں کر رہا ہوتا تھا بلکہ آپ یہ کہہ لیں کہ وہ پرائیویسی کا دور تھا جو اب بالکل ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ اب تو آپ اپنے موبائل کو بھی خطرہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ کہیں آپ کی کوئی تصویر یا کوئی آڈیو… ویڈیو ہی سامنے نہ آ جائے، کوئی دوست آپ کو ان معاملات میں استعمال نہ کر جائے۔ پروڈیوسر کی گفتگو کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ واقع زمانہ بدل گیا ہے۔
اس زمانہ میں صرف ایک ٹی وی کے بندے کے پاس کیمرہ ہوتا تھا آج آپ کا موبائل سب سے بڑا کیمرہ ہے۔ گو سوشل میڈیا نے کمال سے کمال کر دیا مگر یہی کمال اب کبھی کبھی گلے بھی پڑ رہا ہے نجانے جدید دور کے نام سے ہم کدھر لے جائے جا رہے ہیں۔ ہمارے ڈراموں نے جو آج کل ہر چھوٹی سکرین پر نظر آ رہے ہیں ان کو بعض حلقوں میں تو معاشرے کی تباہی کہا جا رہا ہے کہ گھروں میں بیٹھی بچیاں ان کو دیکھ کر وہی رنگ روپ اپنانے لگی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں بے باکیاں زیادہ دکھائی دے رہی ہیں نہ وہ حیا نظر آ رہی ہے جو پہلے زمانوں میں ہوا کرتی تھی نہ اس زمانے میں دوپٹہ سر سے سرکتا تھا اب نہ برقعے، نہ دوپٹے نہ وہ حیا نہ وہ شرم نہ وہ تقدس نہ وہ ماحول… دیکھا جائے تو ہم نے عشروں قبل جب بھارتی ٹی وی ڈرامے ’’ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘ کو ایسا کاپی کرنا شروع کیا کہ آج تک ہم کسی بھی ڈرامے کے سکرپٹ سے ’’ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘ کے ماحول سے نہیں نکل پائے۔ ہم آج بھی ’’ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘ ہی کو دکھا رہے ہیں۔ سکرپٹ سے نام ضرور بدلے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جب کسی بھی ڈرامے کا سکرپٹ لکھا جاتا ہے تو وہاں صرف سین بدلے جاتے ہیں، نہیں بدلا تو ہمارے رائٹر کا ذہن اور اس کا سکرپٹ نہیں بدلا… بات ہو رہی تھی 40سال قبل کی خوبصورت اداکارہ شہناز شیخ کی کہ تقریباً 40سال کے بعد پھر آج اس پر میں نے لکھ رہا ہوں جس پر 40سال پہلے لکھا تھا آج پھر 40سال کے بعد اس کی آواز کو سنا تو دیکھا کہ ارے 40برس گزر گئے یہاں تو لمحہ لمحہ بدل جاتا ہے اور 40سال پہلے کیا تھا یہ سوچنے والی بات ہے یہ ایک دن یا ایک وقت کی بات نہیں۔ میرا 40سال شہناز شیخ کے ساتھ رابطہ منقطع رہا اور جب رابطہ ہوا تو 40سال گزر چکے تھے۔ اس وقت کی صحافت بھی اور طرح کی ہوتی تھی کہ لوگ اور حالات بھی اور طرح کے تھے۔اس زمانے میں جب میں روزنامہ جنگ میں تھا تو روزانہ شام سے رات گئے تک ٹی وی اور فلم کی سرگرمیاں لکھا کرتا۔ میرا ایک موضوع تھا وہ ’’آن دی سیٹ‘‘ ٹی وی کے سٹوڈیوز کے اندر ہونے والے مختلف پروگرامز کی ریکارڈنگز اور خاص طور پر ڈرامے بہت ہوا کرتے تھے۔ میں نے اس دوران پی ٹی وی کے نامور پروڈیوسرز ایم این ایچ انور آفتاب، اے رفیق احمد وڑائچ، راشد ڈار، ارشد تبسم، خاور حیات، نصرت ٹھاکر، عظیم جیسے نام جنہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کو بڑے خوبصورت ڈرامے دیئے۔ ڈرامے کی خوبصورت روایات کو متعارف کرایا اور اگر اس وقت کے فنکاروں اور گلوکاراؤں اور اداکاراؤں کے یہاں نام لکھوں تو میرے لیے ممکن نہیں ہوگا۔
اور آخری بات…!
وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا… لوگ ایک سے نہیں رہتے، چہرے اور کردار بھول جاتے ہیں۔ نوجوان چہرے بڑھاپے میں بدل جاتے ہیں۔ شہناز شیخ اس وقت بھی حسینہ تھی ، شہناز شیخ آج سر پر سفیدی سجائے اس زمانے سے اب زیادہ خوبصورت لگتی ہے۔ آنے والے دنوں میں دیکھتے ہیں۔
میں خار خار الجھتی رہی تمہارے لئے
میں پھول پھول مہکتی رہی تمہارے لئے
میری تلاش کے پاؤں میں پڑ گئے چھالے
میں قریہ قریہ بھٹکتی رہی تمہارے لئے

تبصرے بند ہیں.