’’آداب اختلاف‘‘ کے اہم موضوع پر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے ایک منفرد کتاب تحریر کی ہے۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے حال ہی میں دو جلدوں پر دستور مدینہ اور فلاحی ریاست کا تصور کے موضوع پر کتاب تحریر کی ہے۔ اس کتاب کی پاکستان کی تمام اہم بارز میں تقریب رونمائی ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی آدابِ اختلاف پر لکھی جانے والی یہ کتاب 17ابواب، 118موضوعات اور 367 صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب میں مصنف نے آداب اختلاف پر قرآن و سنت، آئمہ محدثین کے حوالہ جات کے ساتھ اپنی بحث کو نہایت دلنشیں اور مدلل انداز کے ساتھ آگے بڑھایا ہے اور اختلاف رائے کی اخلاقیات پر روشنی ڈالی ہے۔ اگر ہم فی زمانہ فروعی اختلافات اور جھگڑوں پر نظر دوڑائیں تو بیشتر جھگڑے صرف اس وجہ سے ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم اختلاف اور مخالفت کے درمیان فرق بھول گئے ہیں۔ اختلاف رائے کو کسی کی ذات پر عدم اعتماد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہاں ہر شخص اپنی مکمل بات سنانا چاہتا ہے مگر وہی شخص توجہ کے ساتھ کسی دوسرے کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس معاشرتی اخلاقی برائی سے کوئی طبقہ محفوظ نہیں ہے تاہم دینی حلقوں کے اندر زیادہ شدت پائی جاتی ہے اور اختلاف رائے کو ایمان اور کفر کی جنگ بنا کر پیش کیاجاتا ہے۔ دو سال قبل تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مدارس دینیہ کے نصاب کے حوالے سے ایک حیران کن انکشاف کیا تھا کہ یہ نصاب پونے تین سو سال پرانا ہے اور اس نصاب میں اخلاقیات یا امن پر کوئی ایک بھی مفصل کتاب نہیں پڑھائی جاتی بلکہ عربی زبان سیکھنے کے لئے جس شاعری کو نصاب میں شامل کیا گیا ہے وہ بھی عرب جْہلا کی فحش شاعری ہے۔ ہمارے مدارس دینیہ کے اندر بھی نصابی اور تدریسی سطح پر تبدیلیاں آرہی ہیں اور اس نصاب کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ہمارے علماء بھی اور ریاستی ذمہ دار بھی اپنی مقدر بھر کوششیں بروئے کار لارہے ہیں۔ مدارس دینیہ کے اندر اختلاف رائے کے اظہار کی تربیت کو بطور خاص شامل ہونا چاہیے تاکہ سوسائٹی کے اندر بڑھتے ہوئے جھگڑے اور انتہا پسندی کا راستہ روکا جا سکے۔ صرف مذہب ہی نہیں سیاست کے اندر بھی عدم برداشت بہت بڑھ چکا ہے۔ ہم آئے روز پارلیمنٹ کے اندر دھینگا مشتی کے مناظر دیکھتے رہتے ہیں اور حزب مخالف اور حزب اقتدار ایک دوسرے پر جن الفاظوں کی بمباری کرتے ہیں سپیکر کا زیادہ تر وقت اْنہیں حذف کرنے کی رولنگ دینے میں گزرتا ہے۔
ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اپنی مذکورہ کتاب میں اختلاف کے آداب و ضوابط پر جرح کی ہے اور غالباً اس موضوع پر یہ اپنی نوعیت کی پہلی مفصل کتاب ہے۔ میری ذاتی رائے ہے اس کتاب کو مدارس دینیہ کے نصاب میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ایم اے اسلامیات کے نصاب میں بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ اس موضوع پر یہ کتاب آج کے دور کی بڑی ضرورت تھی جسے نہایت عمدگی کے ساتھ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے پورا کیا ہے، ہمارے علماء ہمارے سیاست دانوں، ہمارے کاروباری طبقات یہاں تک کہ دوست احباب، عزیز و اقارب، استاد شاگرد سب کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ سیاسی، سماجی، معاشرتی امور میں جنم لینے والے تنازعات کو دشمنی بنانے کی بجائے اختلاف رائے کی حد تک محدود کیا جا سکے۔
آدب اختلاف کے ساتھ سوسائٹی کا اجتماعی امن جڑا ہوا ہے۔ جون ایلیاکا ایک خوبصورت شعر ہے کہ ’’ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ …………کہ آج تک بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی‘‘ سوسائٹی میں عدم برداشت اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ سچ بولنا ہی نہیں سچ سننا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ہم اختلاف رائے کو عدم اعتماد اور بدگمانی سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنی بحث کو مدلل بنایا ہے کہ اختلاف رائے تشدد و تکفیریت، افراط و تفریط، تعصب اور ہجو وتمسخر سے پاک ہونا چاہیے۔ اختلاف اور مخالفت کی حدود خلط ملط نہیں ہونی چاہئیں۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کی بھی اخلاقی تربیت کی ہے کہ سوشل میڈیا پر اختلاف رائے کا اظہار کس طرح کرنا چاہیے۔ اختلاف رائے میں اعتدال ضروری ہے۔ سورۃ الرحمن میں اللہ رب العزت نے فرمایا ’’اور اسی نے آسمان کو بلند کررکھا ہے اور (اسی نے عدل کے لئے) ترازو قائم کررکھی ہے تاکہ تم بولنے میں بے اعتدالی نہ کرو، اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول کو کم نہ کرو‘‘۔ اللہ رب العزت نے یہاں جس ترازو کی بات کی ہے اس سے مراد اعتدال ہے یعنی افراط و تفریط سے بچواور جب بھی آپ کسی سے بات کریں تو اْس میں تحقیر و تشنیع اور دوسرے کی تذلیل کا عنصر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر سوال میں تعصب اور بلاجواز تنقید و تنقیص ہو گی تو سننے والا اصلاح کی بجائے حملہ آور ہو گا۔ سوسائٹی کو اعتدال کی راہ پر چلانے کے لئے خود پسندی اور خود کو کامل و اکمل انسان کی سوچ سے باہرنکلنا ہو گا۔ اگر سوسائٹی کا امن خطرے میں پڑتا ہوا دکھائی دے تو اپنی صائب ذاتی رائے کو بھی سہولت ہونے کے باوجود دوسروں پر مسلط نہیں ہونا چاہیے۔ خلیفہ منصور کو امام مالک کی کتاب ’’موطا امام مالک‘‘ بہت پسند آئی، ان کی سوچ تھی کہ اگر لوگ اس کتاب پر جمع ہو جائیں تو وہ لاتعداد فقہی اختلافات سے بچ سکتے ہیں۔ خلیفہ منصور نے امام مالک کی اس کتاب کے چند نسخے تیار کروا کر دوسرے شہروں اور ملکوں میں بھیجنے کا ارادہ کیا مگر امام مالک نے خلیفہ وقت کو اپنی کتاب کی تشہیر اور تقسیم سے یہ کہہ کر روک دیا کہ اس سے اْمت میں اختلاف بڑھ سکتا ہے۔ لہٰذا ہر خطہ کے لوگوں کو اپنی سہولت اور اپنی پسند کے علماء سے کسب علم و فیض کا حق ہے، کسی کا نقطہ نظر کسی پر مسلط کرنا جائز نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ امام و محدثین بعض امور پر اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا بے حد احترام کرتے تھے جس اختلاف رائے سے احترام اور شائستگی کے جذبات دم توڑ جائیں وہ اختلاف رائے صحت مند نہیں ہو سکتا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.