ترانے کی حرمت

131

ہماری والدہ کسی زمانے میں ڈائجسٹ پڑھنے کی شوقین تھیں، ہر مہینے باقاعدگی سے شمارے لاتیں، پھر دنیا و مافیہا سے بیگانہ ہو کر پڑھنے بیٹھ جاتیں، کبھی کسی سبق آموز افسانے کے اوراق تہہ لگا کر رکھ چھوڑتیں کہ یہ لازمی پڑھنا تو کبھی خود قصہ سنانے بیٹھ جاتیں، بہت بچپن میں ایک قصہ سنایا کہ ایک بچھو کسی دریا میں ڈوب رہا تھا کہ وہاں سے ایک کچھوے کا گزر ہوا، کچھوے نے مدد کی نیت سے بچھو کو کمر پہ بٹھا لیا، تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ بچھو نے کچھوے کی کمر پہ ڈنک مارنا شروع کر دیے، استسفار کرنے پہ گویا ہوا کہ یار میں عادت سے مجبور ہوں، نتیجہ یہ نکلا کہ کم ظرف شخص سے جتنی بھی اچھائی کر لو وہ اپنی خصلت کے باعث پلٹ کر آپ کو نقصان ہی پہنچائے گا۔ خیر یہ تو تھا بچپن کا ایک قصہ اب ذرا حالاتِ حاضرہ پہ نظر دوڑاتے ہیں اور تھوڑی سی سیاسی دنیا کی تاریخ دیکھتے ہیں ۔
ہماری دنیا میں نیشن سٹیٹ سسٹم 1648 میں ٹریٹی آف ویسٹ فیلیا کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آیا، اس سے پہلے مملکت نہیں ہوا کرتی تھی، قبائل ہوا کرتے تھے لیکن سفارتی قوانین تب بھی ہوا کرتے تھے، قبیلے ایک دوسرے کے سفیر کو عزت دیا کرتے تھے اور سفارتی قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں جنگیں چھِڑ جایا کرتی تھیں، گویا سفارتی قوانین اتنے ہی قدیم ہیں جتنی کہ تاریخِ انسانی۔۔۔ ہمسایہ ملک افغانستان جسے عرفِ عام میں ‘‘سلطنتوں کا قبرستان’’ بھی کہا جاتا ہے اگر صدیوں سے رائج سفارتی اصولوں کا پاس نہ بھی رکھے تو کم از کم ان احسانات کو تو ذہن نشین رکھنا چاہیے جو گزشتہ چار دہائیوں سے وطنِ عزیز نے برادر اسلامی ملک کے ساتھ کیے، لیکن بات وہیں آ کے ٹھہرتی ہے کہ ’’جس پہ احسان کرو اس کے شر سے بچو‘‘ حضرت علی۔ اول افغانستان کے قونصل خانے کے مشیران کا پاکستان کے قومی ترانے کے احترام میں کھڑے نہ ہونا اور پھر ایک وجہ دینا کہ جی ہم اس لیے نہیں کھڑے ہوئے کہ ترانے میں موسیقی تھی بے انتہا مضحکہ خیز ہے، بھئی کیا صرف ہمارے ترانے میں ہی موسیقی ہے؟ چائنہ انڈیا کے ترانے میں بھی موسیقی ہے اس پہ تو آپ فوراً سے پیشتر کھڑے ہو جاتے ہیں، حقیقت میں یہ وطنِ عزیز سے بغض اور عناد تھا اور کچھ نہیں، اور سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا نے اف تک نہ کی، اور ان سے خوش گپیوں میں مگن رہے، یعنی آپ کے ساری بڑکیں صرف اپنے ہم وطنوں کے لیے ہی ہیں، یا یوں کہیں کہ آپ اپنی گفتار کے جوہر فقط اپنے ہی اداروں کے خلاف دکھانے میں ماہر ہیں؟ گویا وفاقی حکومت سے مقابلہ بازی اب ملکی قومی ترانے کے ادب سے زیادہ اہمیت کی حامل ٹھہری؟
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
ذرا تاریخ کے صفحات الٹ کر دیکھیں تو احسانات کی ایک طویل فہرست ہے اور دوسری طرف احسان فراموشیوں کی ایک مزید طویل فہرست ہے۔ دوہا اگریمنٹ کے وقت جب ہم نے یہ نقطہ اٹھایا کہ القاعدہ کے ساتھ تحریکِ طالبان پاکستان کو بھی افغانستان میں جڑیں پکڑنے سے روکا جائے تو مدعی سست گواہ چست کی مانند ہمارا ہمسایہ ہتھے سے اکھڑ گیا، امریکہ بہرطور حامی بھرنے کو تیار تھا، اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے ہماری مشاورت سے کی گئی ایک ایک سفارتکاری کی خلاف ورزی شروع کر دی، پھر جتنی پرامن لیڈرشپ تھی، ملاں عبدالغنی برادر انہیں اٹھا کر کہیں پچھلی صفوں میں ڈال دیا، پھر ڈیورنڈ لائن بارڈر کی باڑیں توڑنا شروع کر دیں، کہ جی ہم تو اس بارڈر کو مانتے ہی نہیں اور پشتونستان نام کا شوشہ چھوڑ دیا، پھر ڈنکے کی چوٹ پہ کہا کہ ٹی ٹی پی آپ کا نجی معاملہ ہے ہم اس میں مداخلت نہ کریں گے اور اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کو ہم نے پناہ دے رکھی ہے اور انہوں نے ہماری سر زمین سے جا کر سرحد پار دھماکے کیے ہیں تو ہمیں ثبوت دیں، پھر ہم کارروائی کریں گے، الٹا اشرف غنی کے وقت سے جو جیلوں میں قید ٹی ٹی پی کے لوگ تھے انہیں بھی جا کر سر آنکھوں پہ بٹھایا ہمارے ہمسایہ کی مثال ایسی معشوقہ سی ہو چکی ہے جس کی کوئی ایک حرکت سیدھی نہیں اور چرب زبانی ایسی قیامت کی کہ پروں پہ پانی نہ پڑنے دے۔۔۔
ان سب اقدامات کے نتیجے میں ملک میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی، اب اگر احسانات دیکھیں تو کولڈ وار یا سرد جنگ 1945-1991 اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ہم نے اس ہمسایہ برادر اسلامی ملک کے لیے بارڈر کھول دیے جس نے 1947 میں ہمیں بحیثیت مملکت تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا، ہم نے لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو اپنے آنچل میں سمو لیا جن کی تیسری تیسری نسلوں نے ہماری سر زمین پر جنم لیا، نہ صرف جنم لیا بلکہ تجارت کے نام پر اسلحہ اور منشیات کے کاروبار کو یہاں عام کیا، بجائے ان کو بارڈرز پہ مقید رکھنے کے انہیں اس حد تک اپنی نیشنل لائف میں حصہ دیا کہ ان کے کرکٹر یہاں آ کر کھیلتے رہے، ان کے علاج یہاں ہوتے رہے، ان کے بچوں نے یہاں تعلیم حاصل کی، ہم نے دوائیوں کی آمد و رفت کے لیے بارڈر بنا ویزے کے کھولے رکھا، احسانات کی فہرست تحریر کرنے بیٹھوں تو شاید لفظ ختم ہو جائیں، بات صرف اتنی سی ہے کہ بھیڑیے پر احسان نہیں کیا کرتے۔ اسی طرح ہر بچھو کو ہمیشہ کمر پہ نہیں بٹھا لیا کرتے، بھارت کے ساتھ روزِ اول سے ہمارے تعلقات دوستانہ نہ بن سکے اور شاید روزِ محشر تک ایسے ہی رہیں گے، دونوں ملکوں کے مابین کرکٹ میچ کسی جنگ کی مانند ہوا کرتا ہے اس کے باوجود دونوں قومیں ایک دوسرے کے ترانے کا سفارتی احترام کرتی ہیں، اور یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے، اربابِ اختیار کو اب ہوش کے ناخن لینے چاہیں ، ہماری وزارتِ خارجہ کو فوری طور پہ اس مکروہ فعل پہ اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔

تبصرے بند ہیں.