شاہدرہ لاہور کے ساتھ میرے بچپن کی ہزاروں یادیں وابستہ ہیں۔ شاہدرہ جمخانہ سے لے کر چاند میموریل اور راوی جمخانہ سے بیگم کوٹ جمخانہ تک تمام کرکٹ ٹیموں کے خلاف کھیلا سو اِس دوران اس علاقے سے بہت زیادہ آشنائی ہوئی۔ میری یہ حیرت کبھی ختم نہ ہوئی کہ لاہور کے اندر چار لاہور کیوں آباد ہیں۔ ایک فیروز والا کراس کریں تو شروع ہو جاتا ہے اور دریائے راوی کے دوسرے کنارے تک آ کر دم توڑ دیتا ہے۔ دوسرا لاہور دریا کے دوسرے کنارے جو کبھی بتی والا چوک کہلاتا تھا وہاں سے شروع ہوتا ہے اور نہر کے پل تک چلا جاتا ہے۔ تیسرا لاہور نہر کے دوسرے کنارے سے شروع ہو کر بارڈر تک بکھرا ہوا ہے لیکن حقیقی لاہور آج بھی بارہ دروازوں کے اندر اپنی پوری شان کے ساتھ کھڑا لاہور کی صدیوں پرانی تاریخ کا چشم دید گواہ ہے۔ یہ چاروں لاہور زبان، رہن سہن، بود و باش اور طرز حیات میں کہیں ایک دوسرے سے مختلف اورکہیں متضاد ہیں۔ گزشتہ ایک ہزار سال میں لاہور نے ہزاروں حکمران بدلتے دیکھے لیکن نہیں بدلی تو علی ہجویری المشہور داتا گنج بخش کی لاہور سے حکومت۔ بلاشبہ اللہ اپنی راہ میں چلنے والوں کی قبریں روشن کر دیتا ہے۔ دریا ئے راوی اور مقبرہ جہانگیر سے آج بھی لاہوریوں کا خصوصی تعلق ہے لیکن دریا کے اُس پار واقع لاہور ہمیشہ عدم توجہ کا شکار رہا۔ میں چونکہ سکول اور کالج کے زمانے میں وہاں کرکٹ میچ کھیلنے جایا کرتا تھا سو اِس کے گلی محلوں اور وہاں کے مسائل سے بھی بخوبی واقف ہوں۔ افغانستان کی جنگ نے نو دولتیوں کی ایک ایسی عجیب و غریب قسم پیدا کر دی ہے کہ انہیں ملنے چلے جائیں تو اپنی قیمتی اشیاء کی قیمت بتاتے بتاتے ملاقات کا سارا وقت گزار دیتے ہیں اللہ ایسے عذاب میں کسی کو مبتلا نہ کرے۔ لاہور کے علاقوں پر ایسا عروج آیا کہ جناب ِ رسالتماب محمد ؐ نے قیامت کی جو نشانیاں بتائیں اُن میں سے کچھ نشانیاں تو اپنی آنکھوں سے سچ ہوتی دیکھ رہے ہیں کہ ’’جب قیامت قریب آئے گی تو زمین اور کمین پر عروج آ جائے گا‘‘۔ دوسری جگہ فرمایا ’’ قیامت اتنی دیر تک قائم نہیں کی جائے گی جب تک کمینے کا بیٹا کمینہ صاحب ِ استطاعت نہ ہو جائے‘‘۔ خدا کمی بیشی معاف کرے لیکن میری یادداشت میں یہ پشین گوئیاں ایسے ہی محفوظ ہیں۔ لاہور میٹرو پولیٹن سٹی بن گیا، یہاں میٹرو بس اور اورنج ٹرین آ گئی، ون کلک پر لاتعداد سرکاری کام ہونا شروع ہو گئے، اب بل جمع کرانے والوں کی لمبی قطاریں بھی نظر نہیں آتیں۔ سکول بھی پہلے سے قدرِ بہتر ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہاں پڑھایا کیا جا رہا ہے، وظائف کی بھرمار ہے، یونیورسٹیاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ اِن تمام باتوں کے باوجود جب کبھی میرا شاہدرہ جانے کا اتفاق ہوتا تو اُس کی بد بودار گلیوں، تعفن زدہ ماحول، بیماریاں پھیلاتے گندگی کے ڈھیر، آلودہ پانی، جانوروں کا فضلا، یہاں تک کہ سکولوں کے واش روم اور پینے کا پانی بھی قابل ِ استعمال نہیں۔ کہتے ہیں کہ بارہ سال بعد رُوڑی کی بھی سنی جاتی ہے لیکن شاہدرہ کے بسنے والوں کو نہ جانے کتنی رُوڑیوں کا انتظار کرنا پڑا لیکن آخر کار یہ کار ِ خیر اللہ تعالیٰ نے لاہور کے مخیر ترین اور انسان دوست سیاستدان عبد العلیم کی جھولی میں ڈال دیا۔ میں نے عبد العلیم خان کے ساتھ سیاست میں ایک طویل سفر کیا ہے۔ وہ سیاست اور فلاح کے کاموں کو گڈ مڈ نہیں ہونے دیتا۔ دنیا کا سب سے امیر انسان بھی دنیا کے تمام انسانوں کے مسائل ختم نہیں کر سکتا لیکن ہر امیر آدمی اپنے حصے کا کام سرانجام دے لے تو بہت سے انسانوں کو ریلیف مل جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے عبد العلیم خان نے لاہور کے قومی حلقہ این اے 117 اور صوبائی حلقہ 149 سے الیکشن میں حصہ لیا اور اُس نے دونوں سیٹیں بآسانی جیت لیں بلکہ بعد ازاں اپنی چھوڑی ہوئی سیٹ پی پی 149 پر شعیب صدیقی کو کھڑا کیا تو وہ بھی بڑے مارجن سے ضمنی الیکشن جیت گیا۔ عبد العلیم کے موجودہ انتخابی حلقہ میں شاہدرہ اور اُس سے ملحقہ لاتعداد پسماندہ علاقے آتے ہیں۔ بچوں کے سکولوں میں بہترین واش
روم، واٹر فلٹر پلانٹس تو الیکشن کمپین کے دوران ہی لگنا شروع ہو گئے لیکن اب اپنے حلقہ کیلئے عبد العلیم خان خصوصی پیکیج سے ترقیاتی کاموں کا آغاز کرنے جا رہا ہے۔ جس سے اس حلقہ کے دہائیوں پرانے مسائل جو اب شدید عوامی مطالبے کی شکل اختیار کر چکے تھے، حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ اپنے حلقے کے عوام سے انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں کی تکمیل شروع ہو چکی، وفاقی وزیر برائے نجکاری و مواصلات و چیئرمین انویسٹمنٹ بورڈ عبد العلیم خان نے حلقہ این اے 117 کی سماجی اور سیاسی شخصیت کے علاوہ سابق کونسلرز، بلدیاتی نمائندوں اور مقامی رہنماؤں کی موجودگی میں واٹر سپلائی، سیوریج، روڈ کارپیٹنگ، لنک روڈ اور سروس روڈ کی تعمیر کا اعلان کرنے کے ساتھ 21 نئے ٹیوب ویل، ایک ڈسپوزل سٹیشن کی نوید بھی سنائی جو عرصہ دراز سے حلقہ کے عوام کیلئے درد سر بنا ہوا تھا۔ عبد العلیم خان نے 30 کروڑ روپے کی لاگت سے 4 رابطہ سڑکیں اور ایک نیا یوٹرن بنانے کا بھی اعلان کیا۔ انہوں نے سیوریج کے بغیر سڑک بنانے کو سرکاری فنڈ کا زیاں قرار دیا۔ این اے 117 لاہور کا تاریخی علاقہ ہونے کے باجود دہائیوں سے پسماندگی کا شکار ہے۔ اب عبد العلیم خان کی قیادت میں یہاں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہونے کو ہے جو مجھے امید ہے کہ عنقریب شروع ہو کر ختم ہو جائے گا اور اپنے پیچھے کا م کی برق رفتاری کی کہانیاں چھوڑ جائے گا۔ این اے 117 میں عبد العلیم خان کے کوآرڈینیٹر میاں خالد محمود سابق صوبائی وزیر بیٹھے ہیں جو ہر وقت عوامی خدمت کیلئے وقف ہو چکے ہیں اور نئے کاموں کی نگرانی بھی یقینا انہی کے ذمہ ہو گی۔ تاریخی مقامات میں عبد العلیم خان کو بہت دلچسپی ہے اور این اے 117 میں موجود تاریخی مقامات، تکیے، ڈیرے اور محلوں کی خصوصی حفاظت پر بھی توجہ دینے کیلئے پنجاب ہارٹی کلچر اتھارٹی کے ساتھ مل کر ان مقامات کو اصل حالت میں محفوظ کرنے کا پروگرام بھی تشکیل دیا جائے گا۔ پاکستان میں نظریاتی سیاسی جماعتوں کی کبھی گنجائش نہیں بنی یہ ہمیشہ شخصی سیاسی جماعتوں کا ملک رہا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ عبد العلیم خان آج آئی پی پی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ عبد العلیم خان اگر اسی رفتار سے کام کرتا رہا تو مجھے امید ہے کہ وہ آئی پی پی کا ہی نہیں پاکستان کا ہیرو بن کر ابھرے گا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.