کبھی ہمارے ہاں تحقیقاتی صحافت ہوا کرتی تھی ہر واقعے، حادثے اور قتل کے بعد فالو اپ کئی کئی دن چلتا پولیس سے زیادہ تحقیق رپورٹر کیا کرتے تھے، کرائم رپورٹر شہریوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی پر حقیقی خبریں فائل کرتے ان کا فالو اپ دیتے تھے یہاں تک کہ عام شہریوں کی مدد بھی کرتے تھے نیک دل اور عوامی خدمت کرنے والے افسروں کی حوصلہ افزائی کی جاتی بلکہ انہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ لیکن اب کرائم رپورٹر کی تعداد میں تو بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے مگر کارکردگی صفر ہے شہر بھر میں مختلف النوع جرائم کی بھر مار ہے مگر آپ کو کسی اخبار یا چینلز پر کوئی تحقیقاتی سٹوری نظر نہیں آئے گی، پریس ریلیز اور بیانات کو خبر قرار دے کر جگہ پُر کر دی جاتی ہے۔ ظلم اب بھی ہوتا ہے، بے گناہ بندے اب بھی اٹھائے جاتے ہیں، رات کے آخری پہر چیخوں کی آوازیں اب بھی آتی ہیں، تشدد سے گردے اب بھی فیل ہوتے ہیں، بے گناہوں پر مقدمات اب قائم کیے جاتے یا کیے جانے کی دھمکیاں دے کر گلشن کا کاروبار عروج پر ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ صحافت جس کے تقدس کی قسم کھائی جاتی تھی وہ اب نہ رہی۔ اس ملک کی صحافت مفادات اور چاپلوسی کی چادر اوڑھ کر سو گئی اور پھر سوشل میڈیائی صحافت نے اس کی جگہ لے کر اسے دیس نکالا دے دیا اور آنے والے وقت میں اس کی مزید بُری حالت ہونے والی ہے۔ پولیس واحد ایک ایسا ادارہ ہے اگر اس کی سمت درست ہو، اس ادارے میں کام کرنے والے افراد عوام کی خدمت کرنے کا حقیقی جذبہ رکھتے ہوں، مظلوموں کے پاسبان ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک سے جرائم میں کمی واقع ہونے کے ساتھ امن و سکون کی فراوانی بھی ہو سکتی ہے۔ تھانہ انصاف فراہم کرنے کی بنیاد ہے کمزور، غریب نادار اور مظلوم اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کے لیے تھانے کا ہی رخ کرتا ہے لیکن اپنے ہاتھ پر دل رکھ کر بتائیے کہ اس کی داد رسی ہوتی ہے؟ دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ دو عشروں سے ہر دور حکومت میں پولیس اصلاحات اور تھانہ کلچر میں تبدیلی کا شور و غوغا رہا ہے لیکن تھانے کو دارالامن پکارنے، یونیفارم کا رنگ بدلنے اور دیواروں پر، پولیس کا ہے فرض مدد آپکی، جیسے خوشنما نعرے لکھنے ایسے ظاہری اقدام سے آگے قدم بڑھانے کی کوئی کوشش کی ہی نہیں گئی۔ ہاں ملک کے حاکم تھانوں میں چھاپے مارنا آسان کام اس لیے سمجھتے ہیں کہ اس سے شہرت ملتی ہے۔ لیکن نظام کو درست کرنا ان کی ترجیح نہیں۔ موٹروے پولیس عمدہ کارکردگی کے حوالے سے ایک مثبت مثال کے طور پر موجود ہے جس کی جدید سائنسی اور نفسیاتی خطوط پر تربیت، انسانی حقوق سے آگاہی اور احترام آدمیت سے شناسائی نے اسے دنیا بھر میں معتبر بنا دیا ہے۔ موجودہ پولیس کا ادارہ جاتی ڈھانچہ مرمت نہیں ازسرنو تعمیر کا متقاضی ہے جس میں بہت سی پرانی اینٹیں ناقابل استعمال قرار دینا پڑیں گی۔ ورنہ ناکوں، چوکیوں اور تھانوں میں بد اخلاقی اور بد سلوکی تو رہی ایک طرف جب پولیس اہلکاروں کی جرائم میں بنفس نفیس ملوث ہونے کی متعدد مثالیں ملیں تو کون غریب انہیں قانون کا رکھوالا ماننے پر راضی ہو گا۔ کہا جاتا ہے انگریز حکمرانوں نے برصغیر میں سرکاری عمارتوں کی تعمیر کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھا کہ مرکزی داخلی دروازے میں ایک چھوٹا کھڑکی نما دروازہ رکھا جائے اور افسران کے کمروں کے دروازے کی چوکھٹ کی اونچائی بھی کم رکھی جائے تا کہ سائل سر جھکا کر اندر آئے۔ وہ حکمران کب کے رخصت ہوئے مگر ڈیوڑھیوں کے در بھی وہی ہیں اور اندر موجود صاحبان اختیار کے سر بھی۔ استغاثہ کرنے والے ہر فریادی کو تھانے میں داخل ہوتے وقت سر جھکا کر گزرنا پڑتا ہے۔ مزید برآں اپنے جائز حق کے حصول کے لیے درخواست میں بخدمت جناب، حضور، جناب عالی، بندہ پرور، مودبانہ گزارش، فدوی، عرض گزار، آپ کا خادم جیسے قدیم غلامانہ دورکے یادگار الفاظ انسان کی تحقیرکے لیے کافی ثابت ہوتے ہیں۔ یہ ذہنیت بدلنا ہو گی کہ عمال اور حکمران تو قوم کے خادم اور معمار ہوتے ہیں نہ کہ بزعم خود بادشاہ سلامت بن کر عوام کو مجبور و زیردست بنانے والے۔ پولیس کے موجودہ فرسودہ نظام کی اصلاح نہ کی گئی تو تھانوں کے ایسے بے تاج بادشاہ قانون کی من پسند تشریح اور نفاذ کرتے رہیں گے۔ ریاستی سطح پر قانون کی مساوی اور حقیقی بالا دستی کا خواب کبھی پورا نہ ہو سکے گا۔ احساس تحفظ کو ترستے تمام والدین کو قصور کی زینب، علی پورکی فرشتہ اور ہر شہر کی ہزاروں بچیوں اور بچوں کی چیخیں بازگشت بن کر، رلاتی اور دہلاتی رہیں گی۔ دنیا بھر میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے عوام کے اندر تحفظ کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان میں صورتحال مختلف ہے۔ یہاں محافظوں کو دیکھ کر تحفظ کے بجائے الٹا لٹنے کا خوف زیادہ بڑھ جاتا بلکہ تحقیقات کے نام پر رازوں کو بیچا اور بلیک میل کیا جاتا ہے۔ اب بندہ اعتماد کرے تو کس پر کرے حالانکہ پولیس، تحقیقاتی ایجنسیوں کے افراد ڈاکٹر اور وکیل جو رازوں کے امین ہوتے ہیں کی تو دوہری ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان کی حفاظت کریں۔ جب کہ یہاں رازوں کے امینوں نے پیشہ ور خواتین کو اپنے ساتھ ملا رکھا ہوتا ہے۔ ہمارے ایک وکیل دوست کے مطابق یہ خواتین امیر لوگوں سے دوستی کرتی اور انہیں اپنی قابل اعتراض ویڈیوز اور تصاویر موبائل فون پر بھیجتی ہیں۔ تصاویر اور ویڈیوز شکار کے موبائل میں پہنچ جاتی ہیں توگروہ کے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے اہلکار کارروائی کرنے پہنچ جاتے ہیں کہ فلاں خاتون نے تمہارے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔ تمہارے پاس اس کی غیر اخلاقی ویڈیوز اور تصاویر موجود ہیں اور ان کی بنیاد پر تم اسے بلیک میل کرتے ہو۔ موبائل فون قبضے میں لیا جاتا تو خاتون کی خود ہی بھیجی ہوئی ویڈیوز اور تصاویر اس میں محفوظ ہوتیں۔ پھر بلیک میلنگ اور رقم بٹورنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے یہ سلسلہ پولیس کے نچلے اہلکار بھی جاری رکھے ہوئے ہیں سڑکوں پر خواتین یا خواجہ سراؤں کو کھڑا کر دیا جاتا ہے وہ لفٹ کے بہانے کار یا موٹر سائیکل پر بیٹھتی ہیں اور انہیں مقررہ جگہ سے گزرنے کا کہتی ہیں اور پھر آگے وہی بلیک میلنگ کی کہانی دہرائی جاتی ہے۔ کسی بھی مہذب معاشرے کی پولیس سے اس طرح کی غیر قانونی غیر اخلاقی سرگرمیوں کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی کیونکہ پولیس ریاست کی جانب سے قوت نافذہ اور نمائندہ ہوتی ہے جس کا کام شہریوں کی عزت نفس سے لیکر ان کی جان و مال کی حفاظت کرنے کے ساتھ ان کی مدد کرنا ہوتا ہے۔ یہ دستور بن چکا ہے کہ کسی شکایت کے اندراج کے لیے عام شہری کو تھانے میں داخل ہوتے ہوئے بھی خوف آتا ہے۔ عزت نفس، سماجی مقام و مرتبہ گروی رکھ کر اسے سپاہی سے لیکر تھانے دار تک ہر ایک کی بار بار منت سماجت کرنا پڑتی ہے لیکن تگڑی رشوت، کسی مقامی معزز، کونسلر، سیاسی یا سرکاری عہدیدار کی سفارش کے بغیر اس کی شنوائی نہیں ہوتی۔ پولیس کے اعلیٰ افسران کو چاہیے کہ وہ پولیس کا وقار بڑھانے اور اسے عوام دوست بنانے کے لیے اپنی اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں نیک نامی انسانی خدمت سے ہی ملتی ہے۔
تبصرے بند ہیں.