اس ملک کے عوام کی بدقسمتی ہے کہ انکے رہنما اقتدار کیلئے ان کے ووٹوں اور انکی رائے پر بھروسہ کرنے کے بجائے یا تو غیر ملکی سفارش یا سازش ڈھونڈتے ہیں یا پھر اندرون ملک اپنی آئینی ذمہ داریوں کے خلاف کام کرنے والے عسکری افراد، عدلیہ میں خلاف قانون کام کرنے والے نام نہاد قانون کے رکھوالوں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں جو اپنی آئینی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر کے خواہشات پر فیصلے کرتے ہیں یہ سب اس ملک میں گزشتہ 77 سال میں ہوا ہے اس لیے ہم جمہوریت کے صرف نام ہی سے واقف ہیں کبھی اسکے ثمر کا مزہ نہیں لے سکے۔ بھرپور انداز میں یہ کام تحریک انصاف کے سیاست میں آنے کے ساتھ ہی شروع ہوا پی ٹی آئی انہی سہانے خوابوں کی یاد میں آج تک ہے مگر اب عسکری قیادت نے کم از کم یہ طے کر رکھا ہے کہ جو ملک میں دہشت گردی کی سیاست کرے گا وہ عوام میں پذیرائی حاصل نہ کر سکے گا۔ پی ٹی آئی کا یہ کرشمہ ہے کہ ایک ہفتہ شریف بچہ بنتی ہے مگر دوسرے روز ہی کپتان اپنے بیان سے فضا کو مکدر کرتا ہے، اس صبح و شام بیانات کی تبدیلی سے پی ٹی آئی کی پیشہ ور وکلا قیادت بھی حیران و پریشان ہے۔ خان کا وہ شیر بھی اب جلسے میں پہنچنے کی صرف کوشش کرتا ہے پہنچتا نہیں ہے۔ اگر کوئی کہے کہ گنڈا پور لاہور کے جلسے میں پہنچ نہیں سکے وہ احمقوںکی جنت میں رہتا ہے یہ گزشتہ مویشی منڈی کے جلسے جس میں کپتان کے شیر نے بہت اول فول بکی تھی اس جلسے کے بعد کپتان کا شیر جو چند گھنٹے ’’غائب‘‘ ہو گیا تھا اسکا نتیجہ تھا کہ کپتان کا شیر لاہور کی مویشی منڈی کے جلسے میں نہ پہنچ سکا۔ اب عوام بھی تنگ آ چکے ہیں اسی لیے یادگار مینار پاکستان کے جلسوں سے بات مویشی منڈیوںکی جلسیوں تک آ پہنچی ہے جن لوگوں نے پاکستان کی سڑکوں پر 9 مئی کو یادگار توڑ پھوڑ مچائی تھی وہ لاہور کی مویشی منڈی سے 6 بجے ہی روانہ ہونا شروع ہو گئے تھے۔ پہلے انقلابی لیڈران وہاں سے عوام کو چھوڑ کر اپنی مہنگی گاڑیوں اور گارڈز کے ساتھ روانہ ہوئے انکے پیچھے انکے انقلابی قافلہ چلا گیا۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ اب پی ٹی آئی معاہدوں پر عمل کرتی ہے سیاسی جماعت کو ایسا ہی ہونا چاہیے اور حکومت کو انکی اس تابع داری پر انہیں جلسہ کی جگہ دینے پر آنی تانی نہیںکرنا چاہئے۔ اگر حکومت سختیاں کریگی تو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ قانون دان چاہے اعلیٰ ہوں یا صرف وکیل واویلا مچاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت اپنی تمام تر امیدیں امریکی صدارتی انتخابات پر لگا رہی ہے، ان کا خیال ہے کہ اگر ٹرمپ جیت گئے تو عمران خان کو مزید مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ان کے خیال میں ٹرمپ نہ صرف پاکستانی حکومت پر خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالیں گے بلکہ ان کی اقتدار میں واپسی میں بھی مدد کریں گے۔ عمران خان کے بابو قسم کے معاون خصوصی زلفی بخاری پر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کے ساتھ قریبی تعلقات کا الزام اپنی جگہ موجود ہے جو ایک حقیقت ہے۔ پاکستان میں حکومت کی پروپیگنڈہ مشینری کمزور ہے نہ جانے وہ کس خوف میں مبتلا نظر آتی ہے ورنہ اب پی ٹی آئی خود مواقع فراہم کر رہی ہے کہ عوام اس سے متنفر ہو جائیں۔ مغربی حکومتوں کی کوششوں کے علاوہ اب اسرائیلی میڈیا بھی عمران خان کی پشت پناہی کرنیوالوں میں شامل ہو گیا ہے۔ اس سے قبل، ٹائمز آف اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ خان نے اپنی سیاسی مہمات میں ملک کی مخالفت کے باوجود اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا اشارہ دیا۔ اب، دی یروشلم پوسٹ نے ایک اور مضمون شائع کیا، جس میں عمران خان کو اسرائیل اور پاکستان کے درمیان تعلقات قائم کرنے کا ایک مضبوط حمایتی قرار دیا ہے، اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے عمران خان کی رہائی اسرائیل کا اول ترین ایجنڈا بن چکا ہے۔ یروشلم پوسٹ کے آرٹیکل میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی قیادت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بنانے میں اہم رکاوٹ ہیں اور تجویز دی کہ کسی بھی پیشرفت کے لیے ان قوتوں کو ہٹانا ہو گا۔ اس نے مزید زور دیا کہ خان کا اثر و رسوخ اسرائیل کے حوالے سے رائے عامہ اور فوجی پالیسی کو تبدیل کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ عمران خان کا اسرائیل سے پیار آج کا نہیں آج سے 20 سال قبل جب حکیم سعید شہید نے اپنی کتاب ’’جاپان کی کہانی‘‘ کے صفحہ 13,14,15 میں عمران کے متعلق اور پاکستان میں ایک یہودی دوست لیڈر کی پیشن گوئی کی تھی، ڈاکٹر اسرار احمد نے 1995میں جو انکشافات یا پیش گوئیاںکی تھیں وہ آج بھی ریکارڈ پر ہیں۔ 2016 میں، عمران خان نے لندن کے میئر کے انتخاب میں عوامی طور پر اپنے سابق بہنوئی، زیک گولڈ سمتھ کی حمایت کی۔ زیک لیبر پارٹی کے پاکستانی نژاد مسلم رہنما صادق خان کے خلاف انتخاب لڑ رہا تھا۔ اس کے باوجود عمران خان نے متعدد ٹویٹس کے ذریعے لندن والوں پر زور دیا کہ وہ صادق خان کے مقابلے میں زیک گولڈ سمتھ کی حمایت کریں اور انہیں ووٹ دیں۔ عمران خان نے قومی سیاست اور ریاست دونوں کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوئی کسر نہ چھوڑی نہ صرف یہ بلکہ غیر جمہوری اور غیر فطری رد عمل اور ریاست سے ٹکرائو کے نتیجہ میں حالیہ انتخابات میں اچھا خاصا ووٹ حاصل کرنے کے بعد بھی قومی سیاسی دھارے میں مائنس کا کردار ادا کر رہے ہیں اور ایک سال سے زائد پابند سلاسل ہیں، حیرت اس امر پر ہے کہ وہ آج بھی مرغ کی ایک ٹانگ کے مصداق اپنے نامعقول نکات پر اڑے ہوئے ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں ہونے والے جلسے خواہ وہ کے پی کے، اسلام آباد، لاہور میں ہوں وہ جلسوں کے بجائے جلسیوں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ مینار پاکستان سے شروع ہونے والے لاکھوں شرکا پر مشتمل جلسے اب صرف مویشی منڈیوں کے گرائونڈ تک جا پہنچے ہیں۔ ایسے ناکام جلسوں کے بہت سے اسباب ہیں جن کی زیادہ تر ذمہ داری تحریک انصاف کے اپنے آپ پر تو ہے ہی لیکن اس سے بھی زیادہ ذمہ دار عمران خان خود ہیں کیونکہ زلفی بخاری کی بیرون ملک دشمن کارروائیاں ایسی گلے کی ہڈی بن چکی ہیں، اسرائیل اور یورپ و امریکہ کی جانب سے خان کی حمایت میں بیانات، ان کی کوششیں جن کے مقابلے میں ہمارے سفارت خانے، وزارت اطلاعات صرف تماشا دیکھ رہی ہے ملک دشمن اور عسکری قیادت کے خلاف واہیات سوش میڈیا پروپگنڈا اور اسکی وجہ سے حکومت کے اقدامات نے ستر فیصد سے زیادہ پاور شو کے لیے نکلنے والے تحریک انصاف کے سپوٹرز اور ووٹرز کو خوف کی بدولت گھروں اور سوشل میڈیا تک محدود کر کے رکھ دیا ہے۔ رہی کسر پارٹی کے اندر مختلف دھڑے بندی اور غیر سیاسی قیادت نے پوری کر دی جو نہ صرف دونوں اطراف میں کھیل رہے ہیں بلکہ انتہا کے بزدل بھی ہیں۔ اس لیے کہتے ہیں اصل یا حقیقی لیڈر کے بغیر جماعت یتیم ہی گردانی جاتی ہے لہٰذا پی ٹی آئی کے موجودہ جلسے سوائے خفت مٹانے اور خانہ پوری کے کچھ نہیں، جن میں کہیں تنظیم اور تحریک نظر نہیں آتی۔ موجودہ اسرائیل اور بیرون ملک سے پاکستان دشمن بیانات کے علاوہ حکیم سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد کے بیانات کے بعد کیا ہمارے میڈیا، معزز عدلیہ کو زیب دیتا ہے کہ پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت بنا کر پیش کریں۔ انکے نزدیک محب وطنی شائد کسی چڑیا کا نام نہیں۔
تبصرے بند ہیں.