بزنس کمیونٹی کی پاور

577

آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس چین کی جی ڈی پی گروتھ امریکا سے بھی زیادہ ہو جائے گی اور وہ عالمی فہرست میں پہلے نمبر پہنچ جائے گا جب کہ امریکا دوسری، جاپان تیسری اور انڈیا چوتھی پوزیشن پر ہو گا۔ چین نے معاشی و اقتصادی ترقی کا سفر انتہائی سکون، صبر و تحمل اور لگن کے ساتھ شروع کیا، ٹیکنالوجی اور سائنسی تعلیم کو ترجیح بنایا اور اس پر بھاری سرمایہ کاری کی۔ سب سے اہم یہ کہ اپنے کاروباری طبقے کو وہ تمام سہولیات دیں جس سے اسے گروتھ ملے۔ کاروباری طبقے کی گروتھ کا مطلب ہے ملکی معیشت کی گروتھ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ آج چین ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔ چین میں غربت میں کمی آئی ہے۔ چینی حکومت سے نے صرف ایک کام کیا۔ انہوں نے بزنس کمیونٹی اور حکومت کے درمیان سے بیورو کریسی کو نکال دیا۔ ملک بھر کے بزنس مین مہینے میں ایک بار چینی صدر سے براہ راست ملاقات کرتے اور متعلقہ محکمے کا سربراہ بھی وہاں موجود ہوتا ہے۔ انہیں درپیش جو بھی مسئلہ ہوتا، ان کی فائل پر موقع پر فیصلہ ہوتا اور اگلے چوبیس گھنٹے میں عملدرآمد شروع ہو جاتا۔ عملدرآمد نہ ہونے کے صورت میں متعلقہ افسر کے خلاف سخت کارروائی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ ہوتی ہیں ویژنری قومیں۔ اسی لیے پچھلے چالیس برس میں چین نے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی ہے۔ ان کے کاروباری طبقات کو معلوم ہے کی ریاستی نظام ان کی پشت پر کھڑا ہے۔ چینی قوم نے اپنے عظیم رہنما ڈنگ شیاؤ پھنگ کے ویژن پر مکمل عمل کیا اور چار دہائیوں پر مشتمل مختصر عرصے میں اپنے ملک کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور اس مقام پر پہنچ گیا جہاں دوسری قوموں کو پہنچنے میں شاید صدیاں لگیں۔ انڈیا نے بھی پچھلے چند برس میں چین کا ماڈل اپنا لیا ہے۔ وہاں بھی بیورو کریسی کے سرخ فیتے کاٹے جا رہے ہیں۔ کاروباری طبقے کو اپنے وزیراعظم سے مہینے میں ایک بار ملنے کی اجازت ہے جہاں ان کا مسئلہ اسی وقت حل کر لیا جاتا ہے۔ اسی لیے بھارت دنیا کی ٹاپ فائیو معیشتوں میں شامل ہو چکا ہے۔ پچھلے دنوں بھارت اور ایشیا کے امیر ترین آدمی مکیشن امبانی کے بیٹے کی شادی میں گوگل، فیس بک کے بانی مارک زکر برگ، مائیکرو سافٹ کے مالک بل گیٹس، ڈزنی ورلڈ سی او رابرٹ اگنر سمیت مشہور کاروباری افراد شریک ہوئے اور شوبز کی ان شخصیات نے رقص کیا جن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگ دیوانہ وار گھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔ اس ایک شادی نے بھارت کو دنیا میں سافٹ پاور کے طور پر ایک نیا امیج دیا ہے۔ یہ سب ایک کچھ ایک کاروباری شخصیت کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ بھارتی حکومت اربوں ڈالر لگا کر بھی یہ سافٹ امیج پیدا نہیں کر سکتی تھی۔ اس شادی کے پس منظر میں ریلائنس انڈیا دنیا بھر سے اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ لانے کا سبب بنی ہے۔ دنیا بھر سے انوسٹرز نے انڈیا کا رخ کر لیا ہے۔ اگر پاکستان میں اپنے کاروباری طبقے پر اعتماد کیا جائے تو یہ اپنی صلاحیت اور محنت اور وطن دوستی میں سب سے آگے ہیں۔ ہم چین اور انڈیا سے زیادہ تیزی سے ترقی کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم نے اپنے کاروباری طبقے کو دنیا کی سب سے نااہل اور بدنام ترین بیورو کریسی کے ہاتھوں کچل کر رکھ دیا ہے۔ کاروباری طبقے کو پاکستان میں ٹیکس چور کہہ کر پکارا جاتا ہے لیکن اس کی وجہ کبھی نہیں جانی جاتی۔ اصل چور اور چوری پر اکسانے اور راستہ دکھانے والی اس ملک کی بیورو کریسی ہے۔ جو پانچ کروڑ کے ٹیکس کے بدلے تاجر سے پانچ لاکھ اپنی جیب میں ڈال کر چوری کا راستہ دکھاتی ہے۔ جو پہلے بجلی کا میٹر اور فیکٹری کا ٹرنسفارمر لگانے کے لیے رشوت لیتی ہے اور پھر بجلی چوری کرنے کا طریقہ بھی بتاتی ہے۔ اگرآج پاکستان کی گرے اکانومی، وائٹ اکانومی سے بڑی ہے تو اس کی ذمہ دار حکومت اور اس نظام کو چلانے والی بیورو کریسی ہے۔ کاروباری طبقہ نہیں کیونکہ ایک بزنس مین کا بنیادی مقصد صرف اور صرف کاروبار کرنا ہے۔ اسے نظام نے جو راستہ دکھانا ہے اس نے فالو کرنا ہے۔ دبئی ایک چھوٹا سا ملک ہے آج سے چالیس سال پہلے ایک لق و دق صحرا تھا۔ لیکن آج اگر دنیا میں سیاحت اور انویسٹمنٹ کا ذکر ہو تو دبئی کا ذکر ٹاپ تھری ممالک میں ہوتا ہے۔ بغیر تیل کے دبئی کی معیشت کا حجم چار اعشاریہ چار کھرب ڈالر ہو چکا ہے۔ دبئی کی حکومت نے آئیڈیاز پر کام کیا ہے۔ دبئی حکومت کی پچیس سے زائد کمپنیاں صرف جدت سے بھرپور آئیڈیا پر انسوسٹمنٹ کر رہی ہیں۔ آپ کے پاس ایک نیا آئیڈیا ہے تو دبئی حکومت اس پر انوسٹمنٹ کے لیے تیار ہے اس لیے دنیا بھر سے بہترین ٹیلنٹ دبئی منتقل ہو رہا ہے۔ دبئی سیاحت کے ساتھ ٹیلنٹ ڈیسٹی نیشن بن چکا ہے۔ اسی لیے لاجسٹکس، بینکنگ، انشورنس اور کیپٹل مارکیٹ، مینوفیکچرنگ، رئیل سٹیٹ، تعمیرات اور سیاحت میں تیزی سے ہونیوالی ترقی نے دبئی کو آج جدید ممالک کی فہرست میں لاکھڑا کیا ہے۔ دبئی پورٹ جبل علی، جو 1970ء کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا، دنیا کی سب سے بڑی انسانی ساختہ بندرگاہ ہے۔ نیا دبئی انٹرنیشنل فنانشل سنٹر جہاں آئی ٹی اور فنانس، دبئی انٹرنیٹ سٹی، دبئی میڈیا سٹی کے ساتھ دبئی ٹیکنالوجی، الیکٹرانک کامرس اور میڈیا فری زون اتھارٹی ایسا انکلیو ہے جس میں اوریکل کارپوریشن مائیکرو سافٹ، سیج سافٹ ویئر اور آئی بی ایم شامل ہیں۔ 1985 میں پی آئی اے سے ادھار جہاز لے کر بننے والی امارات ایئرلائن نے مئی میں اپنے ملازمین کو چھ ماہ کی تنخواہ بطور بونس دی ہے۔ دبئی کی ویژنری قیادت اور کاروباری طبقے کی قدر کے باعث مشرق وسطیٰ اور افریقہ کا سب سے بڑا کاروباری گیٹ وے بن چکا ہے۔ ہمارے شہروں کے پاس دبئی سے زیادہ قدرتی وسائل موجود ہیں لیکن کمی صرف ویژن کی ہے۔ حکومت صرف ایک کام کرے سو بزنس مینوں کی ایک کونسل بنا دے جس کا ہیڈ وزیر اعظم خود ہو۔ چین کی طرز پر کارباری افراد کے مسئلے موقع پر حل کریں۔ جس طرح گھر میں بڑے کو ہیڈ چیئر پر بٹھایا جاتا ہے اس طرح پاکستان میں کاروباری طبقے کو ہیڈ چیئر پر بٹھا کر دیکھیں۔ میں گارنٹی سے کہتا ہے یہ ملک ایک سال میں چین اور دبئی کی طرز پر ترقی کر نے لگے گا۔

تبصرے بند ہیں.