جلسے کی ناکامی

58

اعلیٰ عدلیہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر بھی لکھنا بنتا ہے لیکن یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کچھ پتا نہیں لیکن 1998میں جسٹس سجاد علی شاہ کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ عدلیہ کے اپنے اندر اس طرح کی تقسیم نظر آ رہی ہے۔ اس حوالے سے فی الحال تو کچھ زیادہ کہنا مناسب نہیں ہے کہ معاملات انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہوتے نظر آ رہے ہیں تو تھوڑا سا صبر کر لینا بہتر ہے۔ آج تحریک انصاف کے جلسے کے حوالے سے کچھ عرض کریں گے۔ تحریک انصاف نے 21 ستمبر کو لاہور میں جلسہ تو کر لیا لیکن جلسے کی کامیابی اور ناکامی کا معیار اگر جلسے میں شرکاء کی تعداد ہی ہے تو پھر اسے بلا شبہ ایک ناکام جلسہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کی وجوہات کیا ہیں اس پر یقینا بحث ہو سکتی ہے اور سب سے بڑی وجہ حکومتی اقدامات کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی حکومت کی یہ خواہش نہیںہوتی کہ حزب اختلاف کا جلسہ اتنا بڑا ہو جائے کہ اس کی بلے بلے ہو جائے اور حکومت کو جواب دینا مشکل ہو جائے لہٰذا وہ ہر ممکن طریقہ سے کوشش کرتی ہے کہ دیدہ اور نا دیدہ ہر طرح سے کچھ ایسی رکاوٹیں کھڑی کی جائیں کہ عوام کی تعداد کم سے کم ہو اور پھر تحریک انصاف نے 9 مئی کو جس طرح اپنے پائوں پر کلہاڑی مار ی تھی تو اس کا خمیازہ تو بہر حال بھگتنا پڑے گا اور حکومت اس کی آڑ میں وہ پابندیاں بھی لگائے گی کہ جنہیں کسی طور جمہوری نہیں کہہ سکتے لیکن ان کے جواز میں وہ 9 مئی کے پُر تشدد واقعات کو پیش کر دیتی ہے اور اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ خود تحریک انصاف ہے ورنہ تو جب عدم اعتمادکے بعد پی ڈی ایم کی حکومت آئی تھی تو خان صاحب نے چھ ماہ میں 100 کے قریب جلسے کر دیئے تھے اور ہر جلسے کی اجازت بھی مل گئی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ دو عدد لانگ مارچ بھی کھڑکا دیئے تھے اور یہ سب کچھ مکمل آزادی کے ساتھ کیا جاتا رہا تھا لیکن پھر 9 مئی ہو گیا تو اب حکومت کے پاس ایک بہانہ آ گیا ہے اور حکومت اس کا بڑی مہارت سے استعمال کرتی ہے۔ یہ جلسہ شہر کے مرکز سے کافی دور تھا لیکن فیروز پور روڈ جو اس جلسے گاہ تک رسائی کا راستہ تھا اس پورے روڈ پر کوئی کنٹینر نہیں تھا لیکن رنگ روڈ کے اطراف میں کچھ کنٹینر تھے لیکن جو دوست اس جلسے کی کوریج کر رہے تھے ان سے پتا چلا کہ جلسے میں حاضری تو ویسے ہی کم تھی لیکن اس میں بھی لاہوریوں کی تعداد کافی کم تھی اور زیادہ تر لوگ شہر کے باہر سے آئے ہوئے تھے۔
جلسے کی ناکامی میں صرف حکومتی رکاوٹیں ہی وجہ نہیں تھیں بلکہ حکومت کی جانب سے تو جو کچھ کیا گیا وہ پاکستان کی سیاست میں ایک معمول کی بات ہے اگر حکومتیں اتنا بھی نہ کریں تو شک پڑ جائے گا کہ حکومت کسی دبائو کا تو شکار نہیں ہے۔ جلسے کی ناکامی میں جو اصل عوامل کارفرما رہے وہ خود تحریک انصاف کی سیاست اور حکمت عملی تھی۔ فروری میں الیکشن ہوتے ہیں تو اس وقت تحریک انصاف کو کافی قانونی دشواریوں کا سامنا تھا کہ جس میں بلے کا نشان اور تحریک انصاف کا بحیثیت جماعت الیکشن میں حصہ لینے جیسے اہم امور شامل تھے۔ اس وقت خان صاحب نے اگر تحریک انصاف کی قیادت وکلا برادری کے ہاتھ میں دی تھی تو بات سمجھ میں آتی تھی اور بڑے بڑے وکلا کو اگر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ٹکٹ بھی دیئے تھے تو یہ بات بھی سمجھ آتی تھی لیکن بات یہ ہے کہ وکلا بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو کامیاب وکیل بھی ہیں لیکن ان کی وکالت کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے کہیں زیادہ دسترس سیاست پر بھی ہوتی ہے جیسا کہ بانی پاکستان چوٹی کے وکیل تھے لیکن وہ بہترین سیاست دان بھی تھے اسی طرح جواہر لال نہرو اور ان کے والد موتی لال نہرو تھے اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ یہ سب وکیل بھی تھے لیکن بنیادی طور پر سیاستدان تھے۔ یہ مختصر سی تفصیل اس لیے بیان کی تاکہ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کے حوالے سے خود تحریک انصاف کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اس کی سمجھ آ سکے۔ اس وقت تحریک انصاف کی قیادت جن وکلا کے پاس ہے ہمیں ان کی تحریک انصاف کے ساتھ وابستگی اور بانی پی ٹی آئی کے ساتھ خلوص میں کوئی شک نہیں لیکن بیرسٹر گوہر ہو گئے یا سلمان اکرم راجہ یہ بہترین وکیل تو ہو سکتے ہیں لیکن یہ عوامی مزاج نہیں رکھتے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بیرسٹر گوہر خیبر پختون خوا سے چلے تو ان کے ساتھ درجن سے زیادہ لوگ نہیں تھے اور یہی حال سلمان اکرم راجہ کا تھا۔ اسی طرح لطیف کھوسہ کوئی شک نہیں کہ بہت بڑے وکیل ہیں لیکن یہ ہمیشہ سینیٹر رہے ہیں یا پھر گورنر پنجاب لیکن انہوں نے بھی فروری 2024 کے الیکشن سے پہلے کبھی بھی قومی یا صوبائی اسمبلی کا الیکشن نہیں لڑا تو اس وقت تحریک انصاف کی قیادت سیاسی لوگوں کے بجائے وکلا برادری کے ہاتھوں میں ہے اور تحریک انصاف کے جلسے جو مسلسل فلاپ ہو رہے ہیں ان میں حکومتی اقدامات سے قطع نظر تحریک انصاف کی قیادت سیاسی کے بجائے وکلا برادری کے ہاتھ میں ہونا بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ جس کا عوام سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔
لیکن ان سب سے ہٹ کر عوام کا تحریک انصاف کے لیے احتجاج کے لیے نہ نکلنا سب سے بڑی وجہ ہے۔ اس لیے کہ اوپر جو کچھ کہا ہے وہ تو موجودہ حالات کے تناظر میں کہا ہے لیکن اکتوبر 2022 میں تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی تھے اور لانگ مارچ کی قیادت خود عمران خان کر رہے تھے لیکن اس لانگ مارچ میں عوام کی عدم شرکت کی وجہ سے وہ لانگ مارچ لاہور سے راوی کا پل پار کر کے شاہدرہ سے آگے جانے کے قابل نہیں رہا تھا اور پھر راولپنڈی میں دھرنے کا پروگرام بھی اسی وجہ سے منسوخ کرنا پڑا تھا کہ عوام قابل ذکر تعداد میں موجود نہیں تھے لہٰذا ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ سوشل میڈیا پر یقینا تحریک انصاف کے فین ہوں گے لیکن تحریک انصاف گذشتہ دو سال میں اپنی مقبولیت ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

تبصرے بند ہیں.