آئی پی پیز کے متعلق ایک اور بڑا انکشاف

83

اسلام آباد:دستاویز کے مطابق  گزشتہ مالی سال 4751 میگاواٹ صلاحیت کے 9 آئی پی پیز بند رہے۔   آئی پی پیز بند رہنے کے باعث  عوام کو لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا، مئی اور جون میں پاکستان کو 4 سے 6 ہزار میگاواٹ کے شارٹ فال کا سامنا رہا  ۔

 

 

الٹرن انرجی لمیٹڈ اور ڈیوس انرجن لمٹڈ آئی پی پیز کی بجلی پیداوار صفر رہی،   دونوں آئی پی پیز کی بجلی کی پیداواری صلاحیت 38 میگاواٹ تھی، د1200 میگاواٹ کی صلاحیت کی حامل حب پاورکمپنی کی پیداوار بھی صفر رہی،صفر پیداوار کے باجود حب پاور 22 ارب روپے سے زائد کپیسٹی پیمنٹ لے لی۔حب پاور کو صفر پیداوار پر 2 سالوں میں 43 ارب سے زائد کپیسٹی پیمنٹ دی گئی ۔

 

 

 

 

اسی طرح  1249 میگاواٹ صلاحیت کی چائنہ پاور حب کمپنی کی پیداوار بھی 4.5 فیصد رہی ، صرف 4.5 فیصد پیداوار پر چائنہ پاور حب کمپنی نے 139 ارب روپے وصول کیے۔

 

 

 

 

گزشتہ مالی سال پورٹ قاسم الیکٹرک پاور کمپنی کی پیداوار صرف 7.2 فیصد رہی،پورٹ قاسم الیکٹرک پاور کمپنی کی  پیداواری صلاحیت 1242 میگاواٹ سے زائد ہے،صرف 7.2 فیصد پیداوار پر پورٹ قاسم الیکٹرک نے 103 ارب کی کپیسٹی لے لی ۔

 

 

 

 

اسی طرح 395 میگاواٹ کی روش پاک آئی پی پی کی پیداوار صرف 0.28 فیصد رہی ، صرف 0.28 فیصد پیداوار پر روش پاک نے تقریبا 4 ارب روپے کپیسٹی پیمنٹ لے لی۔  125 میگاواٹ کی صلاحیت والی صبا پاور کمپنی کی پیداوار 4.93 فیصد ریکارڈ  کی گئی ، 4.93 فیصد پیداوار پر صبا پاور نے 2 ارب 54 کروڑ روپے کپیسٹی پیمنٹ لے لی۔

 

 

جبکہ حیرت انگیز طور پر حکومت آئی پی پیز کی انشورنس کے اخراجات بھی خود برداشت کر رہی ہے۔ ابتدائی طور پر آئی پی پیز لگانے کے تمام اخراجات حکومت نے ادا کیے، اور ٹیکس ڈیوٹی اور انشورنس کی مد میں بھی انہیں سہولیات فراہم کی گئیں۔ تاہم معاہدوں کے ختم ہونے پر یہ پلانٹس حکومت کی ملکیت نہیں ہوں گےتھے۔

 

 

 

حکومتی ذرائع کے مطابق آئی پی پیز کے زیادہ تر مالکان مقامی ہیں، لیکن دانستہ طور پر کنٹریکٹ کچھ غیر ملکیوں کے نام پر کیے گئے ہیں۔ پاکستان میں آئی پی پیز پر چند بااثر خاندانوں کی اجارہ داری بھی موجود ہ تھے۔

 

حکومتی ذرائع نے مزید بتایا کہ کچھ آئی پی پیز رضا کارانہ طور پر حکومت سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں تاکہ قیمتیں کم کی جا سکیں، مگر مجموعی طور پر آئی پی پیز کی ملی بھگت سے حکومت کو اربوں روپے کا نقصان ہو چکا تھا۔

 

 

 

ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی پی پیز اپنی لاگت سے سینکڑوں گنا منافع کما چکے ہیں، لہٰذا معاہدوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

 

تبصرے بند ہیں.