آئینی عدالتیں ضروری اور مجبوری ہے:بلاول بھٹو

116

کراچی :چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ہم آئینی عدالت بنا کر رہیں گے۔سندھ ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن سے خطاب کے دوران چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ہم آئینی عدالت بنا کر رہیں گے۔

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ میثاق جمہوریت کے تحت جوڈیشل ریفارمز لے کر آئیں گے، آئین سازی اور قانون سازی ایک ہی عدالت سے نہیں ہوسکتی، آئینی عدالتیں ضروری اور مجبوری ہے، مانیں جس ذمہ داری کے لیے آپ بیٹھے ہیں وہ پوری نہیں ہورہی۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ میں تو اس خاندان، جماعت سےتعلق رکھتاہوں جس نےآئین دیا، ہماری تاریخ کچھ ایسی ہے کہ ہم نے آمرانہ دور بھی دیکھا ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ کیسے 1973 کے آئین کو ایک آنکھ کی لرزش اور ہونٹوں کی جنبش سے اڑا دیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم یہ کام سب سے زیادہ جانتے ہیں، ہم 3 نسلوں سے آئین سازی کرتے آرہے ہیں، آج اگر پاکستان ایک طاقتور ملک ہے تو 1973 کے آئین کی وجہ سے ہے، جن حقوق کی آج بات کی جاتی ہے وہ سب اسی آئین کی

وجہ سے ملتے ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہماری تاریخ کچھ ایسی ہے کہ ہم نے آمرانہ دور بھی دیکھا، ہم نے دیکھا کہ کس طریقے سے معزز جج صاحبان آمر کو کام کرنے دیتے ہیں، بی بی شہید نے آئین کی بحالی کیلئے جدوجہد کی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا جاتا تھا کہ آپ اتنے کرپٹ ہیں کہ آپ پر آئین اور قانون لاگو نہیں ہوتا، پاکستان کا جمہوری نظام ایسا ہے کہ ہم صرف ایک پی سی او جج برداشت کرسکتے ہیں، اگر ایک دفعہ ایک جج پی سی او کا حلف لیتے ہیں تو تب آئین کو اور جمہوریت کو مسئلہ ہوتا ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے جمہوریت کی بحال کے لیے نسلوں کی قربانیاں دی تاکہ عوام کی مرضی چلے تا کہ آپ پارلیمان میں ایسے نمائندے بھیجیں کہ آپ کی مرضی کا قانون بنے اور آپ کی مرضی کا آئین بنے۔انہوں نے کہا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت پر دستخط کر کے یہ طے کیا کہ اگر ہم نے پاکستان کا نظام ٹھیک کرنا ہے اور جمہوریت کو بحال کرنا ہے، عوام کے مسائل حل کرنے ہیں تو میثاق جمہوریت جیسے معاہدوں کو لاگو کرنا ہوگا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہم نے اپنے ماضی سے سبق سیکھے ہیں، ہم اپنی وکلاء برادری کی بہت عزت کرتے ہیں، قانون سازی اور آئین سازی عدالت کے ذریعے نہیں ہوسکتی لیکن جج صاحبان نے 184 اور 186 کے نام پر خود کو اختیار دیا ہے کہ وہ آئین سازی کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عدالتی نظام ٹوٹ چکا ہے، عدالتوں میں ہزاروں مقدمات زیر التوا ہیں اور مجھے انصاف کے حصول کے لیے 45 سال انتظار کرنا پڑا۔ان کا کہنا تھا کہ 58 ٹو بی اور 63 اے آئین میں ایک ایسا ہتھیار تھا جس کو استعمال کرکے جمہوری حکومتوں کو غیر جمہوری طریقے سے گھر بھیجا گیا، اس کالے قانون کو ختم کرنے کے لیے طویل جدوجہد کی گئی اور آخر کار اس کو ختم کیا گیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ایک مقصد کے تحت 63 اے کا فیصلہ سنایا گیا، ہم نہیں چاہتے کہ فلور کراسنگ آسان ہو، ہم چاہتے ہیں کہ ایسا کرنے والے کے لیے سخت سزا ہو اور جب اسے یہ خطرہ ہوگا کہ فلور کراسنگ کی صورت میں اس کے حلقے میں ضمنی انتخاب ہوگا تو وہ اپنے ووٹ پر سوچے گا۔

تبصرے بند ہیں.