گزشتہ کئی برسوں سے یہ روٹین ہے میری گرمیاں کسی نہ کسی گورے اور ٹھنڈے مْلک میں ہی گزرتی ہیں ،پاکستان میں گرمیوں کی شدت اس قدر بڑھ گئی ہے حتی کہ گرمیوں میں’’آموں‘‘ کی اہمیت بھی اب نہیں رہی ،بیشمار لوگوں کو گرمیاں صرف آموں کی وجہ سے اچھی لگتی تھیں ،ہمارے موسم بھی ہمارے مزاجوں کی طرح اب سخت ہوتے جا رہے ہیں ،اکثر گورے مْلکوں میں بادل اْس طرح نہیں گرجتے جس طرح ہمارے ہاں گرجتے ہیں ،بجلیاں بھی اْس طرح نہیں کڑکتیں جس طرح ہمارے ہاں اس خوفناک انداز میں کڑکتی ہیں یوں محسوس ہوتا ہے قیامت قریب آگئی ہے ،برداشت اب ہمارے انسانوں میں رہی نہ موسموں میں رہی ،پاکستان میں بارشوں نے بھی یہ طے کر رکھا ہے ہر سال سیلاب ضرور لے کر آنے ہیں ،دوسری طرف یوں محسوس ہوتا ہے ہمارے حکمرانوں نے بھی بارشوں سے یہ سودا کر رکھا ہے جو تباہی وہ ہر سال مچاتی ہیں اْس کے تدارک کا کوئی اہتمام وہ نہیں کریں گے ،کچھ عرصہ پہلے دبئی میں طوفانی بارش نے تباہی مچا دی ،لوگوں کے اربوں کھربوں ڈالرز کے کاروبار تباہ ہوگئے ،انسانی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ، اس کے بعد یہ نہیں ہوا وہاں حکمران ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھے رہے ،اْنہوں نے دْنیا بھر سے تعمیرات کے ماہرین کو اکٹھا کیا اور اْن کی مشاورت و معاونت سے ایسی منصوبہ بندی کی جس کے نتیجے میں آئندہ ایسے نقصانات سے بچاؤ ممکن ہو سکے ،قدرت سے تو ظاہر ہے کوئی نہیں لڑ سکتا مگر اللہ نے جو دماغ انسان کو دیا پاکستانیوں نے تو طے کر رکھا ہے اْس کا منفی استعمال ہی کرنا ہے مگر دنیا کے محنتی اور نیک نیت لوگوں نے اس کے مثبت استعمال سے انسانی زندگی میں ایسی ایسی آسانیاں پیدا کر دی ہیں حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں ،امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں ایسی سیکڑوں گاڑیاں ان دنوں سڑکوں پر بھاگتی دوڑتی دکھائی دیتی ہیں جن کا ڈرائیور ہی کوئی نہیں ہوتا ،ایسی ہی ایک ڈرائیور لیس گاڑی میں بیٹھ کر اْس کی ایک وڈیو اپنے فیس بْک وال پر میں نے ڈالی لوگ حیران رہ گئے ،ان ڈیجیٹل گاڑیوں کو آپ اپنے موبائل سے کنٹرول کرتے ہیں ،آپ ایک مقررہ ایپ پر اپنی لْوکیشن بھیجیں یہ گاڑی ٹھیک اْس لْوکیشن پر پہنچ جاتی ہے ،ٹریفک قوانین کی اتنی پابندی ڈرائیور نہیں کرتے جتنی یہ گاڑیاں بغیر ڈرائیور کے کرتی ہیں ،اب اگلا تجربہ امریکہ میں ’’فلائنگ کار‘‘ کا کیا جارہا ہے ،اْمید ہے 2028 ء تک یہ حیرت انگیز منصوبہ بھی مکمل کر لیا جائے گا ،ایک ہم’’اللہ کے بندے‘‘ ہیں ڈسپرین ابھی تک اصلی نہیں بنا سکے ،ایک سْوئی ابھی تک ایسی نہیں بنا سکے جس میں دھاگہ آسانی سے چلا جائے ،دوسری طرف دو نمبر نظام اور دو نمبر چیزوں کے ہم اسقدر عادی بلکہ ’’عادی مجرم‘‘ ہو چکے ہیں کوئی اصلی شے ہم پر اثرہی نہیں کرتی ،چند برس قبل امریکہ میں مقیم میرے ایک دوست مجھ سے ملنے آئے ،اْس وقت میرے سر میں شدید درد تھا ،اْن کی موجودگی میں اپنے مددگار سے میں نے کہا ’’شاہ جی ذرا دو ڈسپرین پانی میں گھول کے مجھے دیجئے گا‘‘ ،امریکہ سے آئے ہوئے میرے دوست کہنے لگے ’’ میں امریکہ سے ڈسپرین لے کے آیا ہوں میری گاڑی میں پڑی ہے تم وہ کھاؤ فورا ًآرام آ جائے گا‘‘ ،وہ تیزی سے باہر گئے اور گاڑی سے بڑی خوبصورت پیکنگ والی ڈسپرین لے کر آگئے ،میں نے دو گولیاں کھائیں ،کافی وقت گزر گیا مجھے ذرا فرق نہ پڑا ،پر دوست کا دل رکھنے کے لئے میں نے کہہ دیا’’یار یہ بڑی زبردست گولیاں ہیں میرا سر درد فوراً ٹھیک ہو گیا ہے‘‘ ،حالانکہ سر درد ٹھیک کیا ہونا تھا مزید بڑھ گیا تھا،جیسے ہی وہ دوست رخصت ہوئے میں نے اپنی ڈسپرین کھائی مجھے فوراً ریلیف مل گیا ،بلکہ بعد میں ایسے ہی جب میں نے اْس ڈسپرین کا پتا دیکھا پتہ چلا وہ ایکسپائرڈ تھی ،تب میں نے سوچا ہمارا جسم دو نمبر یا نقلی ملاوٹ شدہ چیزوں کا اتنا عادی ہو چکا ہوتا ہے اصلی کوئی چیز اْسے راس ہی نہیں آتی ،جیسے اصلی دودھ پی کر ہمارے بیشمار لوگوں کو طاقت ملنے کے بجائے پیچش لگ جاتے ہیں جو بعد میں ملاوٹ شدہ دودھ پی کر ٹھیک ہو جاتے ہیں۔۔
اب آدھے سے زیادہ کالم لکھ چکا تو یاد آیا لکھنا تو میں نے کسی اور موضوع پر تھا ،میں یہ عرض کر رہا تھا پچھلے کئی برسوں سے میرے گرمیاں کسی نہ کسی ٹھنڈے گورے مْلک میں گزرتی ہیں ،عموماً یہ ہوتا ہے میں ایک سال امریکہ کینیڈا جاتا ہوں ،دوسرے سال یو کے ،یورپ اور آئرلینڈ جاتا ہوں اور تیسرے سال آسٹریلیا ،نیوزی لینڈ اور انڈونیشیا جاتا ہوں ،درمیان میں کبھی کبھی متحدہ عرب امارات یا مڈل ایسٹ کے کچھ ممالک کا چکر بھی لگ جاتا ہے ،میری فیملی زیادہ تر کینیڈا جانا پسند کرتی ہے وہاں میرا سسرال ہے ،بچے اپنے نانی نانا ،ماموں ،خالہ اور کزنز وغیرہ کے ساتھ وقت گزار کے زیادہ خوش ہوتے ہیں ،میرے لئے یہ معاملہ کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا اس طرح بیگم سے دْور رہ کر مجھے اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا تھوڑا موقع مل جاتا ہے ،ورنہ بیگم اگر طے کر لے اْس نے ہر جگہ میرے ساتھ ہی جانا ہے میں انکار کی جْرأت اس لئے نہیں کر سکتا وہ میرے بچوں کی ماں ہے ،میں تو کسی کے بچوں کی ماں کو انکار کی جْرأت نہیں کر سکتا اپنے بچوں کی ماں کو بھلا کیسے کر سکتا ہوں ؟ خیر ارادہ یہ تھا اس بار گرمیاں پاکستان میں گزاریں گے ،وجہ یہ تھی پاکستان کے شمالی علاقہ جات سے بیشمار دوست مجھ سے مسلسل کئی برسوں سے یہ شکوہ کر رہے تھے ’’تم نے پوری دْنیا گھوم لی ،تم یورپ امریکہ کینیڈا برطانیہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک کی خوبصورتیوں کا بہت ذکر اپنے کالموں میں کرتے ہو ،تم ایک بار اپنے شمالی علاقہ جات اور کشمیر میں آؤ تم گورے ممالک کی ساری خوبصورتیاں بھول جاؤ گے‘‘ ،میں نے ان دوستوں سے وعدہ کر رکھا تھا اس برس میں اْن کے اس حکم کی تعمیل لازمی کروں گا ،افسوس پاکستان کے حکمرانوں نے میرے اس ارادے پر پانی پھیر دیا ،نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے بیرون ملک جانا پڑ گیا ،کچھ لوگ مجھ سے اپنی مرضی کا ’’سچ‘‘ لکھوانا چاہتے تھے ،کسی کے خلاف وہ مجھے استعمال کرنا چاہتے تھے ،بدقسمتی سے پاکستان اب دنیا میں ایک ایسا مْلک بن کر رہ گیا ہے جہاں جھوٹ بولنا آسان سچ بولنا مْشکل ہے ،ایک شعر دیکھئے ۔
سچ بولے گا تو قلم تیرا سر ہو جائے گا
جھوٹ بول کر زیادہ معتبر ہو جائے گا
کسی کی مرضی کا سچ اور کسی کی مرضی کا جھوٹ نہ بولنے والوں پر یہ زمین جتنی اب تنگ ہے شاید اس سے پہلے کبھی ہوئی ہوگی ،اس گْھٹن زدہ ماحول سے کچھ عرصہ نجات کیلئے بیرون ملک چلے گیا تھا۔ ( جاری ہے )
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.