مودی سرکار کے مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کی حیثیت کیا؟، ر وزگار کے کھوکھلے دعوؤں سے نوجوانوں کا مستقبل دائو پر لگ گیا
سری نگر: مقبوضہ کشمیر میں ایک دہائی کے بعدانتخابات ہورہے ہیں۔ ر وزگار کے کھوکھلے دعوؤں سے نوجوانوں کا مستقبل دائو پر لگ گیا ہے۔ ان کا پہلا مرحلہ ہوچکا ہے اور اب دوسرا مرحلہ شروع ہونے والا ہے۔ تاہم یہ بھی قابل ذکر ہےکہ مقبوضہ کشمیر میں انتخابات محض ڈھونگ اور فریب قراردیے جارہے ہیں اور یہ بھی کہاجارہا ہےکہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد2024 میں انتخابات کی کیا حیثیت ہوگی؟۔
مودی کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سے اب تک مقبوضہ وادی میں آزادانہ انتخابات نہیں ہوئے۔ 2014 میں وادی میں انتخابات ہوئے تھے تاہم 2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی گئی تھی ۔
مبصرین کے نزدیک ایک دہائی کے بعد مودی سرکار مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتخابات کا ڈھونگ رچانے کیلئے کوشاں ہے۔ مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کے حوالے سے اب تک جتنے بھی وعدے کئے ہیں وہ سوائے ڈھونگ کے اور کچھ بھی نہیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مودی کا ہندوتوا نظریہ مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کو بھی مسلسل نشانہ بنارہا ہے۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق مودی سرکار ایک جانب انتخابات کا ڈرامہ کر رہی ہے اور دوسری جانب مقبوضہ جموں و کشمیرمیں 6لاکھ سے زیادہ لوگ بیروزگار ہیں اس بے روزگاری کی وجہ سے نوجوانوں کا مستقبل دائو پر لگا ہو اہے۔
بین الاقوامی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ بیرون ملک رہنے والے ہندو انتہا پسند بھی مودی کی حمایت میں مغربی ممالک میں ذات پات پر مبنی امتیاز کو فروغ دے رہے ہیں۔ مسلمانوں اور دلتوں کی مظلومیت عالمی برادری سے چھپانے کی ناکام کوششیں کی جا رہی ہیں۔
تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو 1951سے لیکر اب تک بھارت نے مقبوضہ وادی میں کبھی بھی آزاد اور شفاف انتخابات نہیں ہونے دیئے گئے اور اب بھی مودی سرکار اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے دھاندلی کرے گی۔مودی سرکار کےمقبوضہ وادی میں امن اورخوشحالی کےساتھ ساتھ روزگار لانے کےتمام وعدے کھوکھلے نکلے،کشمیری عوام کا کہناہے کہ ہم اپنے ووٹ کے ذریعے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں 2019 سے پہلے والا کشمیر چاہیئے۔
تبصرے بند ہیں.